پاکستان میں پرانے کرکٹرز نے گڑھے مردے اکھاڑنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اب پچیس تیس سال بعد بولنے کا کیا فائدہ ہے اب تک تو ثبوت بھی مر گئے۔ اس بے وقت کی راگنی سے ہم پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کر رہے ہیں اس جوے جوے کی صداوں سے ہر پاکستانی کا دل دکھتا ہے۔ ان الزامات میں سچائی ہے بھی یا نہیں اگر ہے تو کتنے فی صد ہے جب وقت تھا کہ جواریوں کو سزائیں دلوائی جائیں تو کوئی سامنے نہیں آیا تھا اب جن کرکٹرز کے نام لوگ کم ہی جانتے ہیں وہ بڑے بڑے کرکٹرز کے نام لیکر اپنا نام بنانا چاہ رہے ہیں اور لگتا ہے 90ْکی دہائی میں کرکٹ کم اور جوا زیادہ کھیلا گیا ہے اب ان الزامات کا فائدہ کسی کو نہیںہو گا ۔ اللہ کے بندو جب بولنے کا وقت تھاتو کوئی سامنے نہ آیا کہ میں کیوں پھنسوں اپنا کیریئر کیوں داو پر لگائوں اب دو ٹیسٹ کھیلنے والے اور پچاس ٹیسٹ کھیلنے والے ایک ہی صفحے پر ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کا 30 سال تک منیجری کرنے والا انتخاب عالم اور کرکٹ کے سالہاسال بڑے عہدوں پر رہنے والے بھی اب بولے ہیں ۔خدا کے بندو اگر ہمت ہے اور ثبوت ہیں تو وکیل کرو اور عدالتوں میں جاو کیس لڑو خود بھی پھنسو دوسروں کو بھی پھنساو۔ پاکستانی کرکٹ کا سنہرہ دور کیوں الزامات کی نذرکر رہے ہو ۔دنیائے کرکٹ آپکی حرکتوں پر ہنس رہی ہے اور سب سے زیادہ پریشانی ان پرستاروں کوہو رہی ہے جن کے وہ کھلاڑی رول ماڈل تھے اور ہیں‘ کئی کھلاڑی پاکستانی ٹیم میں ایسے بھی ہیں جو اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو دیکھ کر ان سے سیکھ کر پاکستانی ٹیم کی آج طاقت ہیں انکے آئیڈیل کو جب چور اور جوارئیے کہا جائے تو ان پر کیا گزرتی ہو گی کیونکہ انکی نظر میں استاد کا درجہ ماں باپ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ فرض کریں کچھ کرکٹرز نے اگر کبھی ایسی حرکت کی بھی ہے تو یقینا وہ اپنے ضمیر کے قیدی ہیں اور پاکستانی کرکٹ کے لئے ان کی خدمات کو کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا جیسے انکے ریکارڈ ان مٹ ہیں اسی طرع انکے نام داغدار ضرور ہونگے مگر ان مٹ ہونگے اور کرکٹ کی تاریخ میں زندہ رہیں گے۔