لاہور (حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں جن کھلاڑیوں کے بارے سختی کی گئی ہے ان کے خلاف ٹھوس شواہد موجود تھے۔ سلیم ملک نے ایوانِ صدر میں آسٹریلوی کھلاڑیوں کو میچ فکسنگ کی پیشکش کی، وسیم اکرم کے خلاف بھی شواہد موجود تھے۔ انکوائری میں کرکٹرز نے تعاون نہیں کیا وہ حقائق چھپاتے اور بچنے کی کوششیں کرتے رہے۔ کھلاڑیوں کو کمشن کے ساتھ عدم تعاون کی وجہ سے جرمانے بھی کیے گئے تھے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے سفارشات پر عمل نہ کر کے غلطی کی ہے۔ آج بھی پاکستان کے کرکٹرز میچ فکسنگ یا سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہیں تو اس کی وجہ ہی میری سفارشات کو نظر انداز کرنا ہے اگر کھلاڑیوں کے ساتھ رپورٹ کی روشنی میں برتاؤ کیا جاتا تو بعد میں آنے والوں کے لیے مثال قائم کی جا سکتی تھی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے ایسا نہیں کیا اور آج بھی کرکٹرز فکسنگ میں پکڑے جا رہے ہیں۔ جسٹس ریٹائرڈ ملک قیوم کا کہنا تھا کہ میری رپورٹ میں کوئی کمی یا خامی نہیں ہے رپورٹ میں سب کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ جو سامنے آیا ان چیزوں کی نشاندھی کی گئی اور سزائیں دی گئی ہیں۔ اب سلیم ملک کو موقع دینے یا نہ دینے کا فیصلہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے کرنا ہے۔