اسلام آباد(محمدرضوان ملک)جاپانی حکومت کی جانب سے فوکوشیما ایٹمی ری ایکٹر کی تابکاری سے متاثرہ زہریلا پانی سمندر میں چھوڑ ے جانے کے ممکنہ فیصلہ کے خلاف دنیا سراپا احتجاج بن گئی تاہم پاکستانی میں ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت ایسے کسی بھی معاملے سے لاعلم نکلی ۔ ماحولیاتی و موسمیاتی ماہرین نے اسے آبی حیات اور ماحولیات کیلئے انتہائی خطرہ قراردیتے ہوئے حکومت جاپان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسی غلطی نہ کرے انہوں نے عالمی موحولیاتی اداروں سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ جاپان کو اس اقدام سے ہر صورت باز رکھا جائے اس کے نہ صرف ماحولیات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ سمندری حیات متاثر ہوں گی جس کے اثرات انسانوں پر بھی منتقل ہوں گے اور کینسر اور دیگر جلدی بیماریاں پھیلیں گی۔کزشتہ دنوں سے میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ جاپانی حکومت نے ٹوکیو پاور کمپنی ٹیپکوکا یہ مشورہ قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ فوکوشیما ایٹمی ری ایکٹر کی تابکاری کا زہریلا پانی جس کے اندر تابکاری اثرات اب قریب ختم ہو چکے ہیں اسے سمندر برد کر دیا جائے ۔پاکستان کی تحفظ ماحولیات ایجنسی کے سابق ڈی جی اور ماحولیات کے ماہر آصف شجاع خان نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 2011ء میں زلزلہ اور سونامی کے باعث فوکوشیما کا ایٹمی ری ایکٹر ا لیکج کرنے لگا تو ٹیپکو نے حکام کو یہ مشورہ دیا کہ چونکہ ری ایکٹر سمندر کے کنارے واقع ہے لہذا سمندر کے پانی کو ایٹمی ری ایکٹر میں داخل کردیا جائے تاکہ اس میں پیدا ہونے والی تپش ختم ہو اور ایٹمی تابکاری مزید نہ پھیلے اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان کم ہوتاہم اس سے ریڈی ایشن پانی میں آگئی اور وہ پانی عارضی طور پر ایک ہزار تالاب بنا کر اس میں ڈال کر اسے ٹھنڈا کر دیاگیا۔اس طرح 1.3بلین ٹن پانی اکٹھا ہوگیا۔یہ پانی 2011ء سے ان تالابوں میں سٹور ہے اور ٹوکیو پاور کمپنی نے حکومت جاپان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ یہ پانی اب آلودہ نہیں رہا اور اس سمند ر بردکیا جاسکتا ہے ۔تاہم انہوں نے کہا کہ عالمی توانائی ایجنسی جاپان کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی کیوں کہ اس کے مطابق پریٹنیم کا ٹریٹمنٹ نہیں ہوتااور اس طرح 72 فیصد پانی پھر بھی آلودہ رہتا ہے اور سمندری حیات اس سے متاثر ہو سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اس آلودہ پانی کو سمندر میں پھینکا گیا تو خطر ہ ہے کہ جھینگے ، مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات متاثر ہو گی اور جو انسان ان کا کوشش استعمال کرے گا اسے سرطان اور دیگر مہلک بیماریاں لگنے کا خدشہ ہوگا۔ تاہم وزارت کے ذرائع کے مطابق پاکستان میںماحولیاتی تبدیلی کی وزارت کو تاحال ایسے کسی بھی معاملہ کا علم ہی نہیں ہے۔