بابائے صحافت مجید نظامی

حضرت علامہ محمد اقبال کے بارے پانچ مقالات پر مشتمل میری پہلی کتاب 1993ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا دیباچہ فرزندِ اقبال جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا تھا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن 1996ء میں آزاد بک ڈپو نے شائع کیا۔ 22 جولائی1996ء کو جس کی باقاعدہ تقریب لاہور میں ہوئی جس میں چیف جسٹس (ر) ڈاکٹر نسیم حسن شاہ، بابائے صحافت اور میرے صحافتی مرشد جناب مجید نظامی، محترمہ بشریٰ رحمان اور ہردلعزیز شخصیت طارق عزیز مرحوم نے شرکت کی۔ نسیم حسن شاہ علم و ادب کے بھی دلدادہ تھے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے مجید نظامی میرے کالموں میں میری رہنمائی فرماتے۔ جناب مجید نظامی کے بارے میں کچھ لکھنا میرے لیے سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہو گا۔ مجید نظامی ایک عہد کا نام ہے، پاکستان کی بقا و سلامتی کا نام ہے۔ جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی دونوں بھائیوں نے اپنی زندگیوں اور اخبار کو وطنِ عزیز کے لیے وقف رکھا۔ نوائے وقت پیغامِ اقبال اور قومی زبان اُردو کی خدمت کے لیے 1940ء سے لے کر آج تک اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔ کشمیری بہن بھائیوں کے لیے نوائے وقت آغاز سے لے کر آج بھی اپنا پیغام و کردار بطریقِ احسن نبھا رہا ہے۔ یہ بات زبانِ زدِ عام ہے کہ جب نواز شریف ایٹمی دھماکوں کے لیے تذبذب کا شکار تھے تو مردِ مجاہد جناب مجید نظامی نے انہیں کہا تھا کہ ’’میاں صاحب دھماکے کریں ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔‘‘جناب مجید نظامی مجھ ناچیز سے خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ 2009ء میں جناب مجید نظامی کو میں نے خط لکھ کر کالم لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو تیسرے روز کے پی۔ اے نے فون کرکے بتایا کہ صاحب کہتے ہیں کالم بھیج دیں۔  یہ جناب مجید نظامی کی مجھ ناچیز پر خصوصی شفقت تھی۔ میں نے اپنی تین کتابیں اُن کے نام معنون کیں۔ میں نے تحریک نفاذ اُردو کی بنیاد رکھی۔ فارم لے کر گیا کہ آپ اس کی صدارت فرمائیں تو بڑی خوشی کے ساتھ دستخط کردیئے اور فرمانے لگے کہ میں ایک کارکن کی حیثیت سے آپ کے ساتھ کام کروں گا اتنی انکساری اور اتنا بڑا نام؟ جن سے ملاقات کے لیے صدر اور وزیراعظم کو بھی وقت لینا پڑتا تھا۔ چونکہ میرا مقصد قومی زبان کا نفاذ اور ترویج تھا۔ جب میں سوچتا ہوں کہ بابائے صحافت حضرت مجید نظامی میرے صحافتی مُرشد ہیں۔ میرے اُستاد و راہبر ہیں۔ تو مجھے بہت حوصلہ ملتا ہے اور فخر محسوس کرتا ہوں۔ حضرت مجید نظامی کی سرپرستی جن کو بھی حاصل رہی ہے یقینا وہ خوش نصیب ہیں۔جناب مجید نظامی ایک سچے عاشقِ رسولؐ بھی تھے۔ درحقیقت علامہ محمد اقبال، قائداعظم محمد علی جناح حمید نظامی اور جناب مجید نظامی ایک ہی لڑی کے موتی ہیں۔ یہ عظیم شخصیات اسلام اور پاکستان کی عاشق ہیں۔ علامہ محمد اقبال کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ خطوط کا جواب دینے میں دیر نہیں کرتے تھے۔ بالکل اس طرح جناب مجید نظامی بھی فوراً خط کا جواب دیتے۔ دفتر میں ملنے کے لیے جو بھی حاضر ہوتا آپ اسے ضرور وقت دیتے۔ احترام انسانیت کے قائل تھے۔
؎ خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں
 بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ ہوں گا جس کو
خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
 یوں 27رمضان المبارک 2014ء کو آپ اس جہانِ فانی سے رُخصت ہوگئے بلاشبہ جس طرح اقبال و قائداعظم کا کوئی ثانی نہیں۔ بالکل اسی طرح پاکستانی صحافت کی تاریخ میں جناب مجید نظامی کا کوئی ثانی نہیں ہے یُوں ان کی رحلت کے ساتھ ہی درخشندہ اور باوقار صحافت کا ایک باب ختم ہوگیا ہے۔ اللہ کریم سے دُعا ہے کہ جناب مجید نظامی کو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو اور جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔ آمین
بلندیوں کے مکینوں! بہت اُداس ہیں ہم
زمین پہ آ کے ہم سے گفتگو تو کرو

ای پیپر دی نیشن