محمد اعجاز تنویر
پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں ریٹیل انڈسٹری آج ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکی ہے۔ریٹیل انڈسٹری کے تمام شعبے بڑے شہروں یعنی میٹروپولیٹن شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں کے کسٹمرز کو بھی جدید انداز میں شاپنگ کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ گروسری، کپڑے، جوتے، میڈیسنز، بیکرز، آئس کریم پارلرز اور ہوٹلز کی چینز دن بدن ترقی کا سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہیں۔
انٹرنیشنل ٹریڈرز ’میکرو کیش اینڈ کیری‘ نے تقریباٍ 16 برس قبل پاکستان میں قدم رکھا تھا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ہمیشہ فارن انویسٹمنٹ کے ساتھ جدید انداز، تجربات اور ہنر (skills) کا سیل رواں بھی ساتھ لاتی ہیں۔ ’میکرو‘، ’میٹرو‘ اور ’کیریفور‘ نے جہا ں لوکل انڈسٹری میں جدید آئیڈیاز متعارف کرائے وہا ں کسٹمرز کے شاپنگ کے انداز کو بھی پروان چڑھایا۔مندرجہ بالا تمام کامیابیوں کے ساتھ ساتھ تین اہم شعبہ جات پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔اولاًٹیکس نیٹ میں رہتے ہوئے کاروبار کو آگے بڑھانے کے مواقع میسر آئے، ثانیاً تربیت یافتہ افرادی قوت کی انٹرنیشنل سٹینڈرڈزپرتیاری اورسپلائی چین کے تمام حصوں کی صلاحیتوں کے لئے بین الاقوامی معیار قائم کرنے کا جحان پیدا ہوا ۔ لوکل ریٹیل انڈسٹری کو آگے بڑھنے میں یہ تین کام انتہائی ضروری تھے۔
2006 میںمیکرو کیش اینڈ کیری‘ جیسے انٹرنیشنل پلیئیر نے اس شعبے میںاپنی سوشل کارپوریٹ ذمہ داری کے طور پر جب کام کا آغاز کیا تو مارکیٹ میں یہ بات عام چل رہی تھی کہ ملٹی نیشنل لوکل ریٹیل انڈسٹری کو کھا جائے گی۔ جبکہ ہم نے ہمیشہ یہی مؤقف رکھا کہ ہمیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنا دشمن سمجھنے کی بجائے ان کے خود مختاری پر مبنی انفراسٹرکچر کے فن کو سیکھنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں ون مین یا ون فیملی عرف عام میں ’سیٹھ سیٹ اپ‘ تھا، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آنے کے بعد اس کا خود مختارا ڈھانچہ کے ساتھ مقابلہ ہوا۔اسے یہ مقابلہ کرنا پڑا۔ پھر بہت سوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں سے سیکھ کر اپنا کاروبار کرنا شروع کردیا۔ اس طرح ایک نیا کلچر پیدا ہوا جو اب فروغ پا رہا ہے۔
ٹیکس نیٹ، تربیت یافتہ افرادی قوت اور باصلاحیت سپلائی چین … جس نے بھی اس حکمت عملی پر عمل کیا، جیت اسی کی ہوگی۔ کیونکہ لوکل ریٹیلرز کو ہوم گراؤنڈ کا فائدہ (Home Ground Advantage) ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آنے کے بعد مذکورہ بالا تینوں بنیادی شعبہ جات میں تیزی آئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج الحمدللہ لوکل ریٹیلرز نت نئے آئیڈیاز لے کر پاکستان میں ہر طرف بڑھ رہے ہیں۔ پاکستانی ریٹیلرز ہر فارمیٹ پر کام کر رہے ہیں۔ ای کامرس، سپر مارکیٹ، سہولت اسٹورز (Convenience Stores)، لوکل ماڈرن ٹریڈرز، 24/7 ایکسپریس سٹورز، ہائی وے ٹک شاپس۔ غرضیکہ دنیا بھر میں ہر قابل عمل ریٹیل فارمیٹ کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ کام ہو رہا ہے۔جہاں تک ٹیکس نیٹ کا معاملہ ہے(POS Integration) ہے، ایف بی آر پوائنٹ آف سیل آنے کے بعد لوکل ریٹیلرز کی ترقی کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔ رہی بات باصلاحیت سپلائی چین کی، وہ بھی پہلے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور اب لوکل ریٹیلرز کی گائیڈلائنز کی مدد سے بہتر ہو گئی ہے۔
اگر لوکل ریٹیلرز نے ملک کے کونے کونے میں اپنی برانچز میں اضافہ کرنا ہے تو انھیں تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت کو پوری کرنا ہوگا۔ اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو وہ عمومی غیرہنر مند (generalized non skilled education) دے رہا ہے۔ اپر مینجمنٹ میں تو کچھ نہ کچھ چل رہا ہے لیکن عام سیلز پرسن کے لیے تعلیمی نظام میں کچھ بھی نہیں ہے۔گورنمنٹ اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے انڈسٹری کی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ انٹرنیشنل اداروں کے ’کاپی پیسٹ نالج سسٹم‘ پر عمل پیرا ہیں۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں افرادی قوت انڈسٹری کی ضرورت کے مطابق تیار نہیں ہو رہی ہے۔ پاکستانی عوام اپنے بچوں کی تعلیم پر لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن وہ تھیوری پڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ حالانکہ پریکٹیکل کے بغیر تعلیم ایک سراب ہے۔
انڈسٹری اکیڈمیا لنکیج کی بلا شبہ پاکستان میں بڑی اہمیت ہے۔ ریٹیل انڈسٹری کی بڑھتی ہوئی گروتھ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ریٹیل انڈسٹری کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق افرادی قوت تیار کی جائے، اس طرح پاکستان کو دوفائدے حاصل ہوں گے۔اولاً اس سے 16 سے 18 فیصد تک روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔ دوسرا تربیت یافتہ افرادی قوت کے لیے بیرون مل بھی بے شمار دروازے کھلیں گے۔ سوال یہ ہے کہ انڈسٹری اور اکیڈمیز کے درمیان لنکیج کیسے بنے گا؟ اس کے لیے سب سے زیادہ کوشش کاروباری افراد اور انڈسٹری ہی کو کرنا ہوگی۔ اس سلسلے میں چند تجاویز کارگر ثابت ہو سکتی ہیں۔
(جاری ہے)