خان کے وعدے بمقابلہ حکومتی کارکردگی

کہاوت ہے کہ اگر آپ کے پاس اپنا کوئی واضح ایجنڈہ نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ لیڈر بننا چاہتے ہیں تو دیکھیں کہ لوگ کس طرف جانا چاہتے ہیں اور پھر اعلان کر دیں کہ آپ انہیں اس طرف لے جا سکتے ہیں۔ لوگ خود بخود آپکو اپنا لیڈر مان کر آپکے پیچھے چل پڑیں گے۔ محترم خان صاحب نے شاید اسی کہاوت کا فائدہ اٹھایا۔ پون صدی سے ستائے پاکستانی جو پاکستان کی حالت دیکھ دیکھ کر کڑھتے تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان کی قسمت بھی کسی جادو سے تبدیل ہو جائے ان کو خان صاحب نے ’’ نئے پاکستان ‘‘ کا نظریہ دیا، بلند بانگ دعویٰ، تقاریر، اقوال زریں، اور جانے کیا کچھ۔ مختصریہ کہ جس بھی چیز کا کوئی محب وطن پاکستانی سوچ سکتا ہے وہ انکے وعدوں اور تقاریر میںموجود تھا۔ عوام ، خاص طور پر نئی نسل کی بڑی تعداد انکے وعدوں کے پیچھے لگ گئی۔ 
خیر کسی نہ کسی طرح حکومت مل گئی توانکے چاہنے والوں کا خیال تھا کہ بس اب کسی بھی دن نئے پاکستان کی پیدائش ہو جائے گی۔ انسانی بچے کی پیدائش میں تو کم از کم ۰۸۱ دن لگتے ہیں لیکن خان صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے پاس موجود’’جادو‘‘ سے صرف ایک سو دنوں میں ہی ’’نئے پاکستان ‘‘ کی پیدائش ممکن بنا دیں گے۔ لیکن پھر لوگوں نے دیکھا کہ نہ صرف یہ کہ خان صاحب کے پاس کوئی جادوہے ہی نہیں۔بلکہ انکے وعدے ، دعوے تو دور کی بات، انکی حکومت، کابینہ،وزیر، مشیر اور حکومت میں آنے والی تحریک انصاف ،خود تحریک انصاف کے بیان کردہ نظریے اور وعدوں کے  بر عکس ہے اور عمران خا ن کے اقوال، تقاریر، تحریک انصاف کی حکومت اور اسکے افعال میں کھلے تضادات موجود ہیں۔ ایسا لگنے لگا کہ ان کے پاس نہ تو کوئی قابل عمل پروگرام ہے نہ ایجنڈہ۔تحریک انصاف کی حکومت کو خود پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کہاں جائیں، قوم کا رخ کس طرف پھیریں۔ گھر گھر مرغیوں سے لے کر بکریوں اور’’ کٹوں‘‘ کی تقسیم تک سب آزما لیا۔ نہ تو قوم کا مستقبل تبدیل ہوا، اور نہ نئے پاکستان کی پیدائش ۔ ہالینڈ کے وزیر اعظم کی سائیکل تو ہالینڈ میں ہی رہ گئی، انکے دفتر آنے جانے پر ارب روپیہ خرچ ہو گیا۔ انگریز کے زمانے میں انگریز آقا کے لیے بنایا گیا گورنر ہائوس، گورنر ہائوس ہی رہا اورعوام، عوام ہی رہے۔ کچھ بھینسیں چند لاکھ میں بیچ کر عوام کی آنکھو ں میں دھول جھونکنے کے کوشش کے ساتھ ہی لاکھوں کے طوطے اور پرندے خرید لیے گئے۔ ریاست مدینہ کی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ایک غیر مسلم ممبر نے شراب پر مکمل پابندی کا بل پیش کیا تو کم و بیش تمام ممبران نے اسکی مخالفت کی اور اسے ووٹنگ کے لیے پیش تک نہ کرنے دیا گیا۔
اگر زیادہ بڑی اور زیادہ سنجیدہ چیزوں کا جائزہ لیا جائے تو 2018 ء میں پاکستان کے بیرونی قرضے93 ارب ڈالر تھے جو دسمبر 2021 ء میں بڑھ کر 120 ارب ڈالر کے قریب ہو چکے تھے۔ قرضوں کی واپسی کی بات کی جائے تو 2017 ء میں پاکستان ایف بی آر سے اکٹھے کیے گئے تمام ٹیکسز کا تقریباََ چالیس فیصد قرضوں کی واپسی پر خرچ کرتا تھا جو کہ تحریک انصاف کی حکومت کے اختتام تک 75فیصد ہو گیا تھا۔ اگر حالات یہی رہتے تو 2025ء تک پاکستان کی حکومت ایف بی آر  کی جانب سے اکٹھے کئے گئے ٹیکس کا سو فیصد صرف قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کر رہی ہوتی ۔ روز مرہ اخراجات کے لیے پیسے جانے کہاں سے آتے۔
جہاں تک بات ہے بیرونی سازش اور امریکہ کی جانب سے چین کی قربت کی سزا دیے جانے کی تو  سی پیککے بارے میں پہلا اعلان اور باقاعدہ ایم او یو پر آصف علی زردادی کی چینی صدر سے ملاقات کے موقع پر2013ء میں دستخط ہوئے تھے۔پھر نواز حکومت میں اسپر مزید کام ہوا۔ تحریک انصاف کے دور میں تو سی پیک کے منصوبہ کو تقریباََ روک دیا گیا۔شروع 2021ء میں تحریک انصاف حکومت کے مشیر برائے کامرس ، رزاق دائود کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ انکا خیال ہے کہ کم از کم ایک برس کے لیے سی پیک کے تمام معاملات کو اسی جگہ روک دیا جائے ۔ حیرت ہے کہسی پیک  شروع کرنے کے خلاف تو کوئی بیرونی سازش نہ ہوئی لیکن اسے روکنے والوں کو امریکہ سزا دے رہا ہے اور سازش کر رہا ہے؟
 بقول خان صاحب انکو پچھلے برس جولائی سے معلوم تھا کہ اپوزیشن انکی حکومت گرانے کی سازش کر رہی ہے۔حالانکہ اسمبلی میں حکومت گرانا کوئی سازش نہیں بلکہ ہر اپوزیشن کا حق ہوتاہے جسے پاکستان کا آئین اور عدالتیں تسلیم کرتی ہیں۔ لیکن جس طریقے سے تحریک انصا ف اسے تسلیم کرنے سے انکار کر رہی ہے، کیا یہ آئین پاکستان سے روگردانی نہیں؟بعد میں معلوم ہوا کہ ہالینڈ کے وزیراعظم کی سائیکل کے دھوکے میں جناب خان صاحب 15 کروڑ مالیت کی ایک بم پروف گاڑی ساتھ لے گئے۔جناب پاکستان کا قانون ضرو ر اسکی اجازت دیتا ہوگا۔ لیکن کیا آپ بھول گئے کہ آپ انہی  بادشاہانہ قوانین کے خلاف نعرے لگا کر انہیں ختم اور تبدیل کرنے کے وعدے کے ساتھ حکومت میں آئے تھے۔ اگر آپ نے بھی وہی کچھ کرنا تھا تو تبدیلی کیا آئی ا ور نیا پاکستان کہاں ہے؟پہلے عمران خان صاحب ریاست مدینہ اور حضرت عمر ؓ کی مثال دیتے تھے اور اب پرانے پاکستان کے قانون کے حوالے ؟
 امریکہ تو شروع سے پاکستان اور اسلام کے خلاف ہے۔ آپ پچھلے برس جولائی سے سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود سازش کا شکار ہو گئے؟ اب جب آپکے مخالف کم ازکم یہ میچ جیت چکے ہیں،تو میدان یعنی اسمبلی میں مقابلہ کریں، سڑکوں پر ’’ روندی‘‘ مارنے کا کوئی جواز نہیں۔ اور ایک بار تنہائی میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے یہ بھی سوچیں کہ  آپکے پاس ’’ بیرونی سازش‘‘ کے علاوہ، کیا پونے چار برس میں ’’ کارکردگی‘‘ کے نام پر عوام کو بتانے کے لیے بھی کچھ ہے؟ 
اور ہاں ، مخالفت آپکا حق ہے، لیکن ایسی تقاریر اور اقدامات نہ کریں جو کسی بھی طرح ہمارے معاشرے میں تقسیم،نفرت اور عدم برداشت کا باعث بنیں۔  میچ جیتنے کی تیاری ضرور کریں لیکن ساتھ ہی عہد کریں کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپکو دوبارہ موقع دیا تو اپنی تقاریر اور وعدوں پر عمل کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن