مکرمی! عمران خان خود کو بہت مضبوط اور طاقتور وزیر اعظم سمجھتے تھے ان کاخیال تھا کہ یہ اپوزیشن اس کو نہیں گرا سکتی اسٹیبلشمنٹ اس کے ساتھ ہے بلکہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس میرے سوا کوئی آپشن نہیں ۔ نواز شریف بھاگ کر ملک سے باہر انگلیڈ میں ہے اور وہیں رہے گا مقدمات کے ڈر سے کبھی نہیں آئے گا ۔شہبازشریف اور مریم نواز کی اندرونی جنگ ان کو ہوش نہیں آنے دیگی ۔وہ اس آگ پر گاہے بگاہے تیل چھڑکتے رہیں گے یوں یہ دونوں اسی آگ کاایندھن بن کر رہ جائیں گے دوسری طرف آصف علی زرداری صرف سندھ تک محدود ہے جس کا سندھ کے باہر کوئی نہیں ۔وہ سندھ سے باہر نکلیں گے تو اس کو اسٹیبلشمنٹ روکے گی مزید وہ پی پی اور ایم کیو ایم کی لڑائی کرا دیں گے اندرون کراچی میں ان دونوں جماعتوں کی انتظامی جنگ ہوگی ایم کیو ایم اور پی پی ایک دوسرے پر گندا کیچڑ اچھالیں گی اسمبلی کے اندر اور باہر پی ٹی آئی بظاہر ایم کیو ایم کو سپورٹ کرے گی مگر حقیقت میں وہ اپنا راستہ صاف کرے گی اور ایم کیوایم کے ساتھ مصطفی کمال کی پی ایس پی کا پھڈا کرائیں گے یوں ایم کیو ایم ،پی ایس پی اور پی پی کا علاج کریں گے اس دوران اگلا الیکشن آجائے گا اور میں آسانی سے کلین سویپ کروں گا اس کلین سویپ میں اسٹیبلشمنٹ میرے ساتھ میرے پیج پر ہوگی اورمیں 2028تک وزیر اعظم رہوں گا ۔مگر ایک دم ہوا کا رخ بدل گیا اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی اور اپوزیشن مضبوط ۔ جب عدم اعتماد کا شور بلند ہوا تو عمران خان بہت نارمل دکھائی دئیے ۔انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ان کے خلاف یہ اپوزیش عدم اعتماد لانے میں کامیاب ہوگی بلکہ اپوزیشن یہ جرات کر ے گی ۔وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک کھیل تماشہ ہے جس سے عوام کو تفریح کا وقت ملے گا ۔اگر اپوزیشن سیریس ہوگی تو ان سے چا چا جی خود ہی نمٹ لیں گے اور یہ سب اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگیں گے مگر ایسا نہ ہوا اور اپوزیشن کی عدم اعتماد زور آور ہوگئی جس سے عمران خان کو احساس ہواکہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ واقعی نیوٹرل ہے ’’یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے ‘‘پھر عمران خان نے بہت سرپرائز دئیے مگر ان کا جانا ٹھہر گیا تھا وہ چلے گئے ۔ (اختر گیانی لاہور)