سماجی روایات اور دلوں کی بڑھتی الجھنیں

کالم کا آغاز کسی اور موضوع سے ہونا تھا۔اتوار کی صبح اُٹھ کر لیکن اخبارات پر سرسری نگاہ ڈالی تو میرے گھر اسلام آباد میں آئے ’’نوائے وقت‘‘ کے آخری صفحہ پر اپرہاف میں ایک خبر چھپی تھی۔اخبار کو تہہ کرنے والے خط کے اوپر والے اس حصے کو اہم خبروں کے لئے مختص تصور کیا جاتا ہے۔جو خبر میں نے پڑھی اگرچہ سنگل کالم تھی مگر اہم ہونے کے علاوہ مزے دار بھی تھی۔اس کی بدولت علم ہوا کہ ہفتے کی دوپہر فیصل آباد سے جولائی 2018ء کے انتخاب کے دوران تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے راجہ ریاض کے فرزند راجہ جگنو کی تقریب ولیمہ کاانعقاد ہوا۔ اس تقریب میں نو منتخب وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کے علاوہ فیصل آباد کے رانا ثناء اللہ بھی شریک ہوئے جو ان دنوں وزیر داخلہ ہیں۔مذکورہ حضرات کے علاوہ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ جیسے عمائدین بھی تقریب ولیمہ میں موجود تھے۔
شادی کی تقریب عموماََ ’’خبر‘‘ نہیںبنتی۔اشرافیہ کے مشہور خاندانوں میں تاہم برپا ہو تو عموماََ دولہا دلہن کی اہم ترین مہمانوں کے ساتھ بنائی تصاویر سے کام چلایا جاتا ہے۔راجہ ریاض کے فرزند کا ولیمہ لیکن خبر اس لئے بنی کیونکہ ان کے والد عمران خان صاحب سے بغا وت کے بعد ان دنوں میڈیا میں ’’منحرف‘‘پکارے جارہے ہیں۔سابق وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی عدم اعتماد کی تحریک جب اپنے انجام کی جانب بھاگ رہی تھی تو ان دنوں عمران خان صاحب نے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ’’منحرف‘‘ اراکین کو متنبہ کیا تھا کہ وہ اگر انہیں دھوکہ دینے کی وجہ سے ’’غدار وبے وفا’’مشہور ہوگئے تو ان کے بچوں کو مناسب رشتے ملنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔معاشرے کے باعزت خاندان ’’لوٹوں‘‘ سے رشتے استوار کرنے کو آمادہ نہیں ہوں گے۔معاشرتی اعتبار سے ’’منحرف‘‘ بالآخر خود کو اچھوت سمجھنے کو مجبور ہوجائیں گے۔تقریباََ ایسے ہی خیالات عمران خان صاحب نے جمعہ کے روز میانوالی میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے بھی دہرائے ہیں۔
راجہ جگنو کا ولیمہ مگر یہ ’’خبر‘‘ دے رہا ہے کہ عمران خان صاحب کی توقعات کے برعکس تحریک نصاف کے ایک ’’منحرف‘‘ رکن قومی اسمبلی کے فرزند کو ’’رشتہ‘‘ مل گیا۔شادی کی تقاریب بھی بخیروخوبی منعقد ہوگئیں۔ ربّ کریم نوبیاہتا جوڑے کو خوش وخرم رکھے۔
سیاسی وفاداری بدلنے والے راجہ ریاض کے فرزند کی تقریب ولیمہ کا دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ فیصل آبادکی اس ’’مارکی‘‘ یا شادی گھر میں منعقد ہوئی جو اسی شہر سے تحریک انصاف سے اب بھی جڑے ایک اور رکن قومی اسمبلی شیخ خرم نواز کی ملکیت ہے۔ مذکورہ تقریب میں عمران خان صاحب کے چکوال سے ابھرے ایک دیرینہ وفادار راجہ یاسر بھی شامل تھے جو پنجاب اسمبلی کے رکن بھی ہیں۔قصہ مختصر تحریک انصاف کے جید وفاداربھی راجہ ریاض سے سماجی لاتعلقی اختیار نہیں کر پائے ہیں۔
اندھی نفرت وعقیدت کے ناقابل برداشت موسم میں بھی ہماری سماجی روایات اپنا مقام برقرار رکھے ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی نفرت وہیجان ان پر اثرانداز ہونہیں پائے ہیں۔عمران خان صاحب کی ’’تحریک مقاطعہ‘‘ دھکاسٹارٹ بھی نہیں ہورہی۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھیں تو وطن عزیز میں عمران خان صاحب کی وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد ’’خانہ جنگی‘‘ کی جو دہائی مچائی جارہی ہے محض یاوہ گوئی ہی محسوس ہوتی ہے۔ روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ’’ذہن ساز‘‘ اگرچہ اسے برپا کرنے کو بے چین ہیں۔
میرے ذہن میں آج کے کالم کے لئے جو موضوع تھا اس کی جانب لوٹتے ہوئے عمران خان صاحب کو یاد دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ مقتدر کہلاتی قوتوں کے ساتھ ان کی بدگمانیوں کا اصل آغاز گزشتہ برس کے جولائی میں نہیں ہوا تھا۔ میرا مشاہدہ بضد ہے کہ اس کی ابتداء 2021ء کے مارچ میں ہوئی تھی۔اس مہینے کے وسط میں سینٹ کی خالی ہوئی آدھی نشستوں کا انتخاب ہونا تھا۔ قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرتے ہوئے تحریک انصاف نے اسلام آباد سے خالی ہوئی ایک نشست کے لئے آئی ایم ایف سے مستعار لئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو نامزد کردیا۔پارلیمانی رپورٹروں کی اکثریت کو بھی یقین تھا کہ جیکب آباد سے ابھرے ٹیکنوکریٹ بآسانی کامیاب ہوجائیں گے۔’’ستے خیراں‘‘نظر آتے اس ماحول میں ’’اچانک‘‘ اعلان ہوا کہ پیپلز پارٹی کے  2008ء سے 2011ء کے اختتام تک وزیر اعظم رہے یوسف رضا گیلانی مذکورہ نشست پر حفیظ شیخ کامقابلہ کریں گے۔
طویل گوشہ نشینی کے بعد گیلانی صاحب کا ایک ہائی پروفائل انتخابی معرکہ میں کودنا حیران کن خبر تھی۔ عمران خان صاحب اور ان کے وفادار مصاحبین مگر اس شک میں مبتلا ہوگئے کہ ان کے ساتھ ’’سیم پیج‘‘ پر ہونے کی دعوے دار قوتوں نے گیلانی صاحب کو ’’لانچ‘‘ کیا ہے۔حقیقت حالانکہ قطعاََ برعکس تھی۔ ہوا یہ تھا کہ گیلانی صاحب کے ایک فرزند پیپلز پارٹی کے امیدوار کی صورت پنجاب اسمبلی سے سینیٹر منتخب ہونا چاہ رہے تھے۔ان کی خواہش کو بروئے کار لانے کی غرض سے ہوئے رابطوں کے درمیان پیپلز پارٹی کے ایک جواں سال سینیٹر نے تجویز دی کہ یوسف رضا بذات خود قومی اسمبلی سے ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں اتریں۔ تحریک انصاف کی صفوں میں خاموشی سے جو بغاوت ابھررہی تھی اس کے ہوتے ہوئے فرض کرلیا گیا کہ نواز لیگ کی بھرپور معاونت سے گیلانی صاحب خفیہ رائے شماری کی بدولت اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کے طورپر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو شکست سے دو چار کرسکتے ہیں۔’’سیم پیج‘‘والی قوتوں کا مذکورہ تجویز سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ گیلانی صاحب بھی آخری لمحات تک گومگو کی حالت میں رہے۔ان کے بیٹے مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹر کی دی اس ’’خبر‘‘کی بلکہ سختی سے تردید کرتے رہے کہ گیلانی صاحب کو حفیظ شیخ کے مقابلے میں لایا جارہا ہے۔بالآخر گیلانی صاحب کی نامزدگی کا اعلان ہوگیا اور وہ کامیاب بھی ہوگئے۔
گیلانی صاحب کی کامیابی نے عمران خان صاحب کو چراغ پا بنادیا۔یہ حقیقت تسلیم کرنے کو آمادہ نہ ہوئے کہ ان کی جماعت میں اُبلتی بغاوت حفیظ شیخ کی ناکامی کا کلیدی سبب تھی۔ ’’سیم پیج‘‘ والوں ہی کو موردالزام ٹھہراتے رہے۔ ان کی تسلی وتشفی کے لئے ’’سیم پیج‘‘ والوں نے نہایت لگن سے عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا دوبارہ ووٹ حاصل کرنے میں معاونت فراہم کی۔مذکورہ معاونت کے باوجود اس امر کو بھی یقینی بنایا کہ عمران خان صاحب کی ضد کی تسکین کے لئے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ کے منصب پر ہر صورت دوبارہ منتخب کروایا جائے۔مطلوبہ ہدف کے حصول کے لئے سنجرانی صاحب کی مخالفت میں آئے سات ووٹ جس اندازمیں ’’مسترد‘‘ ہوئے وہ اپنی جگہ الگ کالم کا مستحق ہے۔یہ بات کہتے ہوئے آج کا کالم ختم کرتا ہوں کہ ’’سیم پیج‘‘ کی بابت بدگمانیوں کا آغاز مارچ 2021میں یوسف رضا گیلانی کی قومی اسمبلی سے بطور سینیٹر انتخاب سے ہوا تھا۔اس کے بعد بقول شاعر دلوں کی الجھنیں بڑھتی ہی رہیں۔

ای پیپر دی نیشن