شدید اقتصادی بحران اور دہشت گردی دو ایسے مسائل ہیں جن سے اس وقت پاکستان نبرد آزما ہے۔ یہ دونوں مسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں، اس لیے ایسا نہیں ہوسکتا کہ پاکستان ایک کو چھوڑ کر دوسرے پر قابو پانے کی سعی میں مصروف ہو جائے۔ ان مسائل کے حل کے لیے برادر ملک چین کا تعاون پاکستان کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ہمیں افغانستان کے تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہمیں دہشت گردی کی جس نئی لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے پیچھے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر ایسے گروہوں کا ہاتھ ہے جو پاک افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں موجود ہیں اور پاکستان میں جب سکیورٹی فورسز ان کے خلاف کارروائیاں کرتی ہیں تو پناہ لینے کے لیے افغانستان چلے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت کے تعاون کے بغیر اس مسئلے کا حل نہیں نکالا جاسکتا۔
چین کے ساتھ مشترکہ سکیورٹی چیلنجوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج کے سربراہ سید عاصم منیر سے چینی اسٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ کن گانگ نے ملاقات کی جس میں دونوں فریقین نے دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں اپنے موجودہ تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔ مسلح افواج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، آرمی چیف نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے لیے بھی مکمل حمایت کا وعدہ کیا جو کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم جزو ہے۔ وزیر خارجہ کن گانگ نے برادر ممالک کے درمیان دیرینہ تزویراتی تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کیا اور سی پیک پر ہونے والی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس کی بروقت تکمیل کے لیے چین کے عزم کا اعادہ کیا۔ آرمی چیف نے خطے میں امن اور استحکام کو فروغ دینے میں چین کے کردار کااعتراف کیا اور دونوں فریقوں نے مشترکہ سکیورٹی چیلنجوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں اپنے موجودہ تعاون کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔
دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مشترکہ چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون بڑھانے سے متعلق بات چیت کے لیے جنرل عاصم منیر سے قائم مقام افغان وزیر برائے خارجہ امور امیر خان متقی نے ان کے دفتر میں ملاقات کی۔آرمی چیف اور افغان وزیر خارجہ نے علاقائی سلامتی، بارڈر مینجمنٹ اور موجودہ سکیورٹی ماحول میں بہتری کے لیے دوطرفہ سکیورٹی میکانزم کو باقاعدہ بنانے کے پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا۔ امیر خان متقی نے باہمی دلچسپی کے امور میں افغان عبوری حکومت کی جانب سے مکمل حمایت اور عزم کی ضرورت کا اعادہ کیا۔ افغان وزیر خارجہ نے علاقائی استحکام اور خوشحالی کے فروغ کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ فریقین نے دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور مشترکہ تشویش کے مسائل کو حل کرنے کے لیے باقاعدہ رابطوں کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر اتفاق کیا۔آرمی چیف نے ایک مستحکم، پرامن اور خوشحال افغانستان کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے ہونے والی کوششوں کے ضمن میں پاکستان نے دو روز پہلے چین اور افغانستان کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات کے پانچویں دور میں شرکت کی جس میں سیاسی مشغولیت، انسداد دہشت گردی کے خلاف تعاون سمیت سہ فریقی فریم ورک کے تحت تجارت، سرمایہ کاری اور رابطہ کاری کے تعاون کو بڑھانے اتفاق کیا گیا۔تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین ہونے والے اس مذاکراتی دور میں سیاسی امور، انسداد دہشت گردی، تجارت اور روابط پر نتیجہ خیز بات چیت کی گئی۔ اسی طرح پاک افغان وزرائے خارجہ نے آپس میں ہونے والی ملاقات کے دوران دہشت گردی سے نمٹنے اور دوطرفہ تعاون کو گہرا کرنے کے لیے تعاون بڑھانے، دوطرفہ اور ٹرانزٹ تجارت کے حوالے سے علاقائی اقتصادی انضمام اور روابط کے فروغ کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں رہنماؤں نے امن و سلامتی کے ساتھ ساتھ تجارت اور روابط سمیت باہمی دلچسپی کے اہم امور پر واضح اور تفصیلی تبادلۂ خیال کیا۔
پاکستان کو اس وقت جن سنگین مسائل کا سامنا ہے ان کے پیدا ہونے کی وجوہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خطے میں ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو طاقت کے توازن کو بگاڑنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ ایسے میں چین اور افغانستان کے ساتھ روابط کو فروغ دینا اور مختلف معاملات میں تعاون بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تینوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے مابین ہونے والے مذاکرات سے بہتر نتائج برآمد ہونے کی توقع رکھنی چاہیے۔ اسی طرح پاک فوج کے سربراہ سے چینی اور افغان وزرائے خارجہ کی جو ملاقاتیں ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں سکیورٹی کے سلسلے میں تعاون مزید بڑھنے کی امید رکھنی چاہیے جس سے ایک طرف دہشت گردی پر قابو پانے میں مدد ملے گی اور دوسری جانب ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا جو شر پسند عناصر کو خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے سے باز رکھے گا۔ اس خوش آئند صورتحال سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ چین اور افغانستان کو بھی فائدہ حاصل ہوگا اور خطے کے اندر اور باہر موجود دیگر ممالک بھی اس سے مستفید ہوں گے۔