بھارت کی سات پڑوسی ریاستیں جنہیں عرف عام میں سیون سسٹرز کہا جاتا ہے میں طویل عرصے سے علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہاں کے عوام اور سیاستدانوں کو بھی جبری اور جعلی الحاق کی آڑ میں بھارت میں ضم کر کے ان کی شناخت زبان اور کلچر کو ختم کر کے یہاں ہندو تہذیب و تمدن کو پروان چڑھانے اور انہیں مکمل ہندو سٹیٹس بنانے کی مہم بھارت کے مکار حکمرانوں نے روزاول سے ہی شروع کر دی تھی یہی وجہ ہے کہ ان ریاستوں میں بھارتی مسلح افواج کی بڑی تعداد کالے قوانین کے بل بوتے پر یہاں کے لوگوں کے بنیادی حقوق غضب کئے ہوئے ہے۔ یہاں کے عوام کو جب بھارت کی اس مکروہ چانکیائی سیاست اور ہندو توا کی چالبازیوں کا علم ہوا تو انہوں نے اپنی بقا کے لئے اپنے زبان، کلچر اور ریاستی حقوق کے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھا لئے۔ ان ریاستوں میں ما? نواز اور دیگر کمیونسٹوں ،نکسل باڈیوں کی سیاسی طاقت نے بھارتی مسلح یلغار کا عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور گزشتہ کء دہائیوں سے جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں۔ تمام تر ظلم و جبر کے باوجود ان کی آزادی کی تحریکیں ماند نہیں پڑ سکیں۔
ان شورش زدہ سات ریاستوں منی پور، جھارکھنڈ، آسام ، ناگا لینڈ، تری پورہ، میگالے، میزورام کی پوری پٹی برما بنگلہ دیش سے قریب ہے اور اروناچل پردیش کو بھی انہی کے ساتھ شامل کیا جائے تو چین بھی انکا پڑوسی ہے۔ اروناچل پردیش کو بھی جبری طور پر بھارت نے اپنی ریاست قرار دیا ہے جبکہ چین کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے۔ نقشے میں اسے چین کا حصہ دکھایا جاتا ہے۔ یہاں بھی بھارتی فوج کی بڑی تعداد وہاں کے لوگوں کی زبان بندی اور جذبہ حریت کو کچلنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ مگر سیون سسٹرز میں جس طرح بغاوت کی صورتحال ہے۔ اس نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ نام نہاد جمہوریت کا نقاب اوڑھے بھارت اپنے اندر ایک ہندو توا کا عفریت پال رہا ہے اور جہاں جہاں بی جے پی کے انتہا پسند غنڈوں کو دھونس دھاندلی سے حکومت مل رہی ہے وہ وہاں سے غیر ہندو اقلیتی آبادی کو ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ان کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رام راج کے نام پر شودروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ کسی دوسرے مذہب کے ماننے والے کی جان مال اور عزت بھارتی فورسز اور بی جے پی کے مسلح غنڈوں کے ہاتھوں محفوظ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کی مقامی آبادی کے لوگ بھارت سے آزادی کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں چونکہ مسلم آبادی زیادہ ہے اس لئے وہاں کے قتل عام پر تو عالمی برادری نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ مگر منی پور میں عیسائی آبادی کے قتل عام اور گرجوں دکانوں گھروں کو جلانے پر اب ضرور ان کی طرف سے ردعمل سامنے آئے گا۔ ویسے ہی جس طرح مشرقی تیمور اور دارفر کے عیسائی اقلیتوں کی طرف سے آزادی اور علیحدگی کے اعلان پر فوری ردعمل سامنے آیا اور یہ دونوں آزاد ہو گئے۔ مقبوضہ کشمیر پر تو خود ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمانوں نے وہ آواز بلند نہیں کی جس کی کشمیریوں کو امید تھی۔ تو اقوام متحدہ سے کیا گلہ۔
مگر وقت اپنی چال چل رہا ہے۔ منی پور اس وقت شدید فسادات کی لپیٹ میں ہے جہاں بھارتی فورسز ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے۔ یوں عالمی سطح پر اسے بھارت کے لئے دوسرا کشمیر کہا جا رہا ہے۔ مقامی باشندوں کے قتل عام ان کے گھروں، دکانوں ، گرجا گھروں کو جلانے کی وجہ سے اسے دوسرا گجرات بھی کہا جا رہا ہے جہاں موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں مقامی مسلمانوں کا بری طرح قتل عام کیا گیا۔ ہزاروں مکانات، دکانیں اور مساجد ، مزارات جلائے گئے کم و بیش 4 ہزار سے زیادہ بے گناہ نہتے مسلمانوں کو قتل کیا گیا ، زندہ جلایا گیا۔ آج یہی کچھ منی پور میں ہو رہا ہے جہاں بھارتی فوج پولیس اور ہندو شہری وہاں کے مقامی عیسائی قبائل کو تہہ تیغ کر رہی ہیں، وجہ وہی کہ وہ علیحدگی پسندوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں فوج کے تازہ دم دستے بھیجے جا چکے ہیں۔ انٹرنیٹ بند ہے۔ کرفیو نافذ کیا جا چکا ہے، ابھی تک سینکڑوں افراد کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ واضح رہے کہ منی پور کی علیحدگی پسند تحریکوں نے برطانیہ میں اپنی جلاوطن حکومت قائم کر رکھی ہے جس پر بھارت کو شدید غصہ بھی ہے۔ بھارت کی شمال مشرقی ان سات ریاستوں کی آبادی کچھ زیادہ نہیں اس کے باوجود یہاں 100 سے زیادہ علیحدگی پسند جنگجو گروہ بھارت سے برسرپیکار ہیں اور علیحدگی چاہتے ہیں جنہیں بھارت فوجی طاقت کے ذریعے کچلنے میں مصروف ہے۔ اس وقت بھارت کے شمالی علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں تو دوسری طرف مشرقی پنجاب میں سکھ اپنی آزادی اور خالصتان کے قیام کی تحریک تیز کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے اندر ہندو انتہا پسندی کے جواب میں اقلیتی آبادی میں اپنے تحفظ کا احساس زور پکڑ رہا ہے جو اس بات کا اعلان ہے کہ جلد یا بدیر بھارت کے مزید ٹکڑے ہو سکتے ہیں کیونکہ ظلم و جبر ، ناانصافی اور انتہا پسندی کی سیاست کبھی زیادہ دیر کامیاب نہیں رہ سکتی۔
٭…٭…٭