سچی بات ہے مجھے تو اپنی ارض وطن پر جاری سیاست کاری سے گھن آنے لگی ہے۔ جب انصاف کے برتر ایوان میں بھی سیاست در آئی ہو اور ہماری دانشوری بھی بس اپنے مفادات کے چنگل میں پھنسی ملکی‘ عوامی مفادات اور زمینی حقائق کی جانب آنکھیں بند کئے بیٹھی ہو اور نفرت و حقارت کے کلچر کو بڑھاوا دے رہی ہو اور پھر کسی ’’چارہ گر‘‘ کی جانب سے چارہ گری کا احساس ہی عنقا ہو چکا ہو تو بھینس کے آگے بین بجانے سے میکدے کے حالات میں تبدیلی کی بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ قلم گھسیٹو‘ حقائق کی پرکھ پڑتال کرکے اپنے جذبات کے اظہار کیلئے الفاظ کا چنائو کرو اور بلیم گیم کی جاری سیاست سے دردمندی کے ساتھ گریز کی تلقین کرو تو اپنی قیادتوں کے ساتھ اندھی عقیدت سے سرشار لوگ ذہن پر دبائو ڈالے اور سوچ بچار کے دروازے کھولے بغیر بس کاٹنے کو دوڑتے نظر آتے ہیں۔ عزت‘ توقیر‘ احترام‘ بھائی چارے کا جذبہ انکے قریب پھٹکتا بھی نہیں اور شرفِ انسانیت کے جذبے کو تو وہ تھپکیاں دے کر سلا چکے ہوتے ہیں۔ بابافرید گنج شکر نے شاید ایسے ہی کسی ماحول کو بھانپ کر تلقین کی تھی کہ:
جے توں عقل لطیف‘ کالے لکھ نہ لیکھ
اپنے گریبان میں‘ سر نیواں کر ویکھ
آج ذرا کسی اندھے عقیدت مند کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دیکر دیکھو‘ اسکے ہاتھوں آپ کا اپنا دامن اور گریباں ایسا تارتار ہوگا کہ آپ کی عقل لطیف کو چھٹی کا دودھ یاد آجائیگا۔ ہم نے منافرت کی سیاست میں شرفِ انسانیت کا تو جنازہ نکالا ہی نکالا ہے‘ قرابت داری اور عزیز داری کو بھی نفرتوں کے الائو میں جھونک دیا ہے۔ بابافرید کا ایک قول ہے کہ سوئی بن‘ قینچی نہ بن‘ قینچی کاٹتی ہے اور سوئی جوڑتی ہے۔ خدا لگتی کہیئے! آج کے تار تار معاشرے کو قینچی کی ضرورت ہے یا سوئی کی؟ ارے! بس یہاں تو قینچیوں کے ہی جا بجا جلوے نظر آرہے ہیں اور سوئی کو جوڑنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ قینچی کا کرشمہ دیکھیئے کہ ہماری عدل گستری کے ’’مکھ منتری‘‘ جناب بندیال صاحب بھی قینچی کے کاٹنے والے کردار کے اسیر بن چکے ہیں۔ وہ باربار قبل ازوقت تحلیل کی گئی اسمبلی کے انتخاب کے 90 دن کے اندر انعقاد کا آئینی تقاضا یاد کراتے ہیں اور اس آئینی تقاضے کے معاملہ میں خیبر پی کے اسمبلی کی جانب اپنی ’’اجلی‘‘ آنکھ بند کر لیتے ہیں۔ انکی میلی آنکھ بس پنجاب اسمبلی پر ہی مرکوز رہتی ہے۔
سابق چیف جسٹس کارنیلیس کی یاد میں منعقدہ سیمینار میں خطاب کے دوران بھی وہ 90 دن کی آئینی میعاد کی تکرار کو نہیں بھولے اور فرمایا کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے ججز اپنی آنکھیں نہیں جھپک سکتے۔ ہم اگر انہیں تحلیل شدہ خیبر پی کے اسمبلی کی جانب بھی اپنی نظرِ عنایت مرکوز کرنے کا کہیں گے تو اپنے ممدوح کے اندھے عقیدت مند لٹھ لے کر ہماری جانب دوڑنا شروع ہو جائیں گے۔ عدل گستری کے چیف صاحب سے ہرگز یہ تقاضا نہیں کرینگے کہ مائی لارڈ! یہ آئینی تقاضا خیبر پی کے اسمبلی کیلئے بھی پورا کرادیں۔ توجہ صرف پنجاب اسمبلی پر ہے اور اس کیلئے 90 دن کا آئینی تقاضا پورا نہ ہونے پر توہین عدالت اور نااہلیت کی تلوار پورے سسٹم پر لٹکائی جا رہی ہے تو جناب! یہ جھکائو ’’چٹا ننگا‘‘ ہو کر سابقہ اور موجودہ چیف صاحبان اور انکے اہل خانہ سے منسوب آڈیو کیسٹس کے پس پردہ موجود اصل کہانیوں تک ہی زبانِ خلق کو آسان رسائی دے رہا ہے۔ اور اگر سارا زور ستمبر سے پہلے پہلے صرف پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیلئے لگایا جا رہا ہے جس کیلئے 14 مئی کو ہرصورت اس اسمبلی کا انتخاب کرانے کے اپنے فیصلے پر ڈٹ کر کھڑے ہونے اور پائوں کی مٹی نہ چھوڑنے کا باربار عندیہ دیا جا رہا ہے تو جناب آپ کونسی انتظامی مشینری اور کس ریاستی اتھارٹی کے ذریعے اس فیصلہ پر ہر صورت 14 مئی کو عملدرآمد کرائیں گے۔ ساری متعلقہ انتظامی مشینری اور تمام متعلقہ ریاستی ادارے تو 14 مئی کے انتخابات کو عملی طور پر ناممکنات کے کھاتے میں ڈال چکے ہیں۔ پھر کیا ان سب ریاستی اتھارٹیز کو توہین عدالت کی لاٹھی کے ساتھ ہانکا جا سکے گا۔ اس زور آوری پر تو یقیناً فساد ہی ہوگا۔ کیا عدل گستری کی منشاء ملک اور معاشرے کو عدم استحکام‘ انارکی اور خانہ جنگی کی جانب دھکیلنے کی ہو سکتی ہے۔ اگر کسی ’’عقل کل‘‘ کی خوشنودی اور اسکے اقتدار کی راہ دوبارہ ہموار کرنے کا مقصد اپنے منصب و اختیار میں توسیع لینے کا ہے تو سو بھیس بدل لینے والی عیار عقل کے واضح نظر آتے جلوے متعلقین کی آنکھیں خیرہ کرکے تو غالب نہیں ہو سکتے۔ اگر یہ سارا اہتمام غالب کے اس شعر کے حقیقی منظر کو اجاگر کرنے کا ہے تو پھر ایک دوسرے پر چھینا جھپٹی کے بعد سب متعلقین یہی داد فریاد کرتے نظر آئیں گے کہ:
آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار‘ میں چلائوں ہائے دل
ایسے بنتے بگڑتے منظر میں گزشتہ روز نورِبصیرت کی کرنیں بکھیرتے ہمارے کالم نگار‘ سکہ بند شاعر‘ نامور دینی سکالر اور مفکر و دانشور اینکر علامہ رضا الدین صدیقی کے نیویارک میں سانحۂ ارتحال کی خبر ملی تو دل تھام کے رہ گیا۔ ایسی مرنجاں مرنج اور باغ و بہار انسان دوست شخصیت کا ہم سے بچھڑ جانا بلاشبہ ایک صدمۂ جانکاہ ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ علامہ رضا الدین صدیقی بلاشبہ علم و عمل کا منبع و شاہکار تھے جنہوں نے اپنی خوش گفتاری و خوش سیرتی کے ذریعے تبلیغ دین کی جملہ منازل بھی طے کیں اور ایک زمانے کو اپنی خوش اخلاقی کا اسیر بھی بنایا۔ نوائے وقت کا کالم نورِبصیرت دین مبین کی معاملاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر شرف انسانیت کے ناطے تبلیغ کا ایک اہم اور عام فہم فورم ہے۔ معروف دینی سکالر میاں عبدالرشید ایک طویل عرصہ تک یہ فریضہ سرانجام دیتے رہے اور انکی شہادت کے بعد بھی انکی لکھی تحریروں نے نوائے وقت کے قارئین کیلئے خلاء پیدا نہ ہونے دیا۔ پھر جب 2014ء میں ’’نورِبصیرت‘‘ کیلئے میاں عبدالرشید کے پائے کے کسی دوسرے دینی سکالر اور کالم نگار کے انتخاب کا مرحلہ درپیش آیا تو نوائے وقت گروپ کی چیئرپرسن محترمہ رمیزہ نظامی نے اس انتخاب کیلئے مجھے ذمہ داری سونپی اور متعدد دینی سکالرز سے رابطے کے بعد میری نگاہ علامہ رضا الدین صدیقی پر ٹک گئی۔ میری انکے ساتھ کئی نشستیں ہوئیں اور پھر ’’نورِبصیرت‘‘ کیلئے رضا الدین صدیقی صاحب کی کنٹری بیوشن کا آغاز ہو گیا۔ کچھ عرصہ قبل وہ تبلیغ دین کے سلسلہ میں امریکہ تشریف لے گئے تو وہاں عارضۂ قلب نے انہیں ایسا گھیرا کہ علاج معالجہ کی خاطر وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ اس دوران وہ لاہور میں اپنے ایک عزیز کی وساطت سے کالم نورِبصیرت تسلسل کے ساتھ بھجواتے رہے اور یہ سلسلہ انکے آخری سانس تک برقرار رہا۔ گزشتہ روز انکے سانحۂ ارتحال کی خبر ملی تو دل رنج سے بھر گیا۔ بے شک:
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
اور جو بیٹھے ہیں وہ چلنے کو سبھی تیار بیٹھے ہیں
خدا ہمارے دکھی معاشرے کی ساری خطائیں معاف فرمائے۔