*عوام ابھی کوما میں ہیں*

غلام شبیر عاصم
مائی حسین بی بی(بڑھیا حسین بی بی) کو عرفِ عام میں مائی حسیناں کہتے تھے۔عمر تقریبا?? 70,80 برس تھی۔کئی بار موت کے منہ سے واپس آئی تھی،بڑھاپا   اْسے اپنے قابو میں کرچکا تھا۔ایک روز مائی حسیناں بی بی اللہ کو پیاری ہوگئی،گاوں کی مسجد میں اعلان کردیا گیا۔رشتہ داروں تک موت کا پیغام پہنچانے کے لئے  روانہ کردیا گیا تھا،تاکہ اگلے روز شام سے پہلے مائی حسیناں کو سپرد خاک کردیا جائے۔مائی حسیناں مٹی کا ڈھیر ہوئے چارپائی پر مردہ حالت میں پڑی تھی۔چارپائی کے اردگرد گاوں کی خواتین بیٹھی آنے والے مہمانوں خاص کر دور کسی شہر میں بیاہی گئی بیٹی کے انتظار میں سوگ اور احساسِ مفارقت میں ڈوبی ہوئی گفتگو کررہی اور دھریک کے پتوں کا پنکھا بنا کر میت سے مکھیاں ہٹا رہی تھیں۔بالاخر مائی حسیناں کی بیٹی فضا میں بازو لہرا لہرا کر روح فرسا ب?ین کرتی ہوئی صحن میں داخل ہوئی اور ماں کی میت پر گرنے ہی کو تھی کہ خواتین نے اٹھ کر اسے سنبھالا اور باہوں میں بھینچ کر خوب ب?ین کئے۔آہستہ آہستہ بیٹی کے آنسووں کا بپھرا ہوا دریا اتر گیا۔کرلاپ سِسکیوں میں اور سِسکیاں باتوں میں بدل گئیں۔مائی حسیناں کو محلے کی فاطمہ بی بی اور دیگر خواتین نے مل کر غسل دیا، چارپائی پر لٹا دیا گیا۔اچانک ایک خاتون کی نظر پڑی کہ مائی حسیناں کے پاوں نے حرکت کی ہے۔اگلے ہی لمحے مائی حسیناں نے دونوں ٹانگیں سمیٹتے ہوئے آپس میں گْھٹنے ملا دئیے۔اسی اثنائ￿  میں مائی اٹھ کر بیٹھ گئی۔سب خواتین حیران و ششدر رہ گئیں،چیختی چلاتی میت کو چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو بھاگ گئیں۔مائی حسیناں دراصل کوما میں چلی گئی تھی۔زمین پر ابھی اس کی سانسیں اور چلنا پھرنا  باقی تھا۔اس واقعہ سے میرے ذہن میں جو بات کوما سے باہر آرہی ہے،وہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام بھی لگتا ہے ابھی کوما میں ہیں۔بے حِس اور ظالمانہ طرزِ سیاست نے عوام کو پھٹے پر پڑی مدہوش مچھلی یا مائی حسیناں کی طرح کردیا ہے۔جس دن عوام کے مقدر جاگ گئے،عوام کوما سے جاگ گئے۔حکمران جنہیں مردہ خیال کررہے ہیں وہ عوام ایک دن اٹھ بیٹھیں گے اور مذکورہ عورتوں کی طرح سیاستدانوں کی دوڑیں لگ جائیں گی۔سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔سب پکڑے جائیں گے۔پائی پائی کا حساب ہوگا۔بس مسجد والی چارپائی پر اٹھ کر بیٹھنے کی دیر ہے۔عوام ابھی کوما میں ہیں۔اس کوما سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے،ورنہ ذرا بھی دیر ہوگئی تو عوام کو سپرد خاک کردیا جائے گا۔دعا ہے کہ اللہ پاک عوام کو کوما سے بیدار کردیں۔کہیں دورِ جاہلیت میں لڑکیوں کی طرح زندہ ہی در گور نہ کر دئیے جائیں۔اب تا قیامت"ختمِ نبوت"کا دور ہے۔ورنہ اس زمانہ میں جو سیاستدانوں کے ظالمانہ و جابرانہ اور منافقانہ و سفاکانہ رویے ہیں،ان سیاستدانوں  کی تذلیل اور المناک عذاب کے لئے وارننگ ضرور  آتی۔تعجب کی بات ہے جن سیاستدانوں کی"سیاسی محبت"میں سیاسی کارکنان ایک دوسرے کے گریبان کو آجاتے ہیں،ان لیڈرز پر قومی دولت لوٹنے،قانون توڑنے مروڑنے کے جرم میں ان پر کئی برائے نام مقدمات درج ہیں لیکن ہم عوام اپنے ان مجرمان کو الٹا پروٹوکول دیتے ہیں۔اس کے برعکس جب تک ایسا ہی چلتا رہے گا تو پھر ہمیں نظام کے بدلنے قانون کی بالادستی اور جمہوریت کے اصل نفاذ کے نعرے نہیں لگانے چاہئیں اور نہ ہی ان نعروں پر ایمان لانا چاہئیے۔اگر واقعی عدل سے کام لیاجائے تو پروٹوکول میں سانس لینے والے کئی صاحبان تختہ دار کے مہمان ٹھہریں گے۔پھانسی گھاٹوں پر گھاس اگ آئی ہیاور یہ بکری پھانسی گھاٹ پر اگی ہوئی گھاس ہی سے اپنا پیٹ بھررہی ہے۔

ای پیپر دی نیشن