عبدالستار چودھری
abdulsattar.ch@gmail.com
سانحہ نو مئی کو ایک برس مکمل ہو چکا ہے لیکن تاحال اس سانحہ کے مرکزی کرداروں کے خلاف قانونی کارروائی اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچائی جا سکی، پاکستان کے نظام عدل میں اس قدر "گنجائش" موجود ہے کہ جرم ثابت کرنے میں اس قدر تاخیر برتی جاتی ہے کہ مجرم تخت نشین ہو جاتے ہیں اور احتساب کا عمل رک جاتا ہے۔ سانحہ نو مئی کے محرکات کچھ بھی ہوں لیکن ایک جرم سرزد ہوتے ہوئے پوری دنیا نے دیکھا، توڑ پھوڑ اور آتشزدگی کے علاوہ شہداء کی قبروں کی توہین کی گئی ۔ اگرچہ اس ذہنی دیوالیہ پن کے معاملے پر منقسم رائے پائی جاتی ہے کہ چند سو افراد کیسے اہم اور حساس تنصیبات تک پہنچے اور توڑ پھوڑ کی جب کہ عام حالات میں وہاں چڑیا پر نہیں مار سکتی لیکن سیاسی جماعت کے کارکنوں کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کے واقعات کی تو پوری قوم گواہ ہے۔ساری دنیا نے دیکھا کہ نو مئی 2023 کو ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے فوجی تنصیبات پر دھاوا بول کر آگ لگا دی، شہداء کی یادگاروں کو غیض و غضب کا نشانہ بنا ڈالا لیکن اس گھنائونے عمل کے بعد سزا اور جزا کا نظام تساہل کا شکار ہے۔
شاید اسی لئے پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے اپنی حالیہ پریس بریفنگ میں اس سانحہ پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 9 مئی 2023 کو عوام اور فوج میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، 9 مئی کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ 9 مئی صرف افواج پاکستان کا مقدمہ نہیں ہے، یہ پورے پاکستان کے عوام کا مقدمہ ہے، پاک فوج پر حملہ کرایا گیا، شہدا کی علامات کی تضحیک کی گئی، پاکستان کے بانی کے گھر کو جلایا گیا، فوج اور عوام کے درمیان نفرت پیدا کی گئی، اور وہ لوگ جو اس سب میں ملوث ہیں، اگر ان کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا گیا تو نظام انصاف پر سوال اٹھتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر پاکستان کے نظام انصاف پر یقین قائم رکھنا ہے اور جزا اور سزا کا وہ نظام جس پر اللہ تعالیٰ کی یہ کائنات، یہ قدرت اور یہ نظام چلتا ہے، اگر اس پر یقین قائم رکھنا ہے تو 9 مئی کے ملزمان، اس کو کرنے والے اور اس کو کرانے والوں کو آئین اور قانون کے مطابق سزا دینی پڑے گی۔ انہوں نے 9 مئی سے متعلق بیانیہ بنائے جانے کے حوالے سے کہا کہ 9 مئی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے، اس کے ناقابل تردید شواہد عوام کے پاس بھی ہیں، افواج کے پاس ہی نہیں، ہم سب کے پاس ہیں، ہم نے اپنی آنکھوں سے ان واقعات کو ہوتے دیکھا، ہم سب سے دیکھا کہ کس طریقے سے لوگوں کی ذہن سازی کی گئی، ان کو افواج کے خلاف، اس کی قیادت کے خلاف، ایجنسیوں اور اداروں کے خلاف جھوٹ اور پروپیگنڈے سے ان کے ذہن بنائے گئے۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ سیاسی رہنماؤں نے چن چن کر اہداف دیے کہ ادھر حملہ کرو، ادھر حملہ کرو، ہم نے دیکھا کہ چند گھنٹوں میں پورے ملک میں صرف فوجی تنصیبات پر حملے کرائے گئے اور ان واقعات کو آپ نے بھی دیکھا، کیمرے کی آنکھ نے فلم بند بھی کیا اور جب یہ شواہد اور توڑ پھوڑ کے واقعات کھل کر لوگوں کے سامنے آ گئے تو الٹا جھوٹا پروپیگنڈا شروع کر کے لوگوں کو فریب دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ فالس فلیگ آپریشن تھا، یہ تو پتا ہی نہیں کہ یہ کیا ہوا، کون، کیسے کرگیا۔ اس موقع پر انہوں نے ایک انگریزی مقولے کا حوالہ دیا اور کہا ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے کہ ’آپ سب لوگوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنا سکتے ہیں، کچھ لوگوں کو ہمیشہ بیوقوف بنا سکتے ہیں، لیکن آپ سب لوگوں کو ہمیشہ کے لیے بیوقوف نہیں بنا سکتے، لہٰذا یہ جھوٹ اور یہ فریب میرے بھائی اب نہیں چل سکتا،۔ اس موقع پر ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے 9 مئی 2023 کو پیش آئے توڑ پھوڑ کے واقعات سے متعلق کچھ مناظر بھی نشر کیے گئے اور اس کیلئے پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کے بیانات بھی نشر کیے گئے۔ انہوں نے کہا یہ مناظر دیکھ کر انسان خون کے آنسو روتا ہے کہ کس طرح معصوم بچوں کو ذہنی طور پر ورغلایا گیا، کس طرح ان میں زہر ڈالا گیا، کس طرح اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے اپنے ملک کی فوج، اپنے ہی شہیدوں اور اپنی ہی املاک کو آگ لگائی۔
انہوں نے کہا کہ نظر دوڑائیں تو آپ کو ماضی قریب میں بھی ایسے دیگر واقعات کی مثال ملتی ہے، اگست 2011 میں لندن فسادات ہوئے، بلوائیوں نے سیاسی اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا، اس کے بعد وہاں کا، کرمنل کورٹ سسٹم اور قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے، دن رات عدالتیں لگیں، جو بلوائی اور انتشاری تھے، جو ان کے پیچھے کروانے والے تھے، انہیں سخت سے سخت سزائیں دلوائی گئیں، اگر ان فسادات میں 18 سال سے کم عمر بچے ملوث تھے، انہیں بھی نہیں چھوڑا گیا، انہیں بھی سزائیں دلوائی گئیں۔ 2021 میں واشنگٹن ڈی سی امریکا میں سیاسی بلوائی کیپیٹل ہل کی عمارت میں گھسے، وہاں عمارت کو نقصان پہنچایا، توڑ پھوڑ کی تو وہاں چینلز پر بحث و مباحثے یا کسی جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ نہ کیا گیا، کرمنل کورٹ سسٹم آگے آیا، لوگوں کی شناخت کی گئی اور ان کو بھی جو وہاں موجود تھے یا موجود نہیں لیکن ان واقعات کے محرکات میں شامل تھے، سخت سزائیں دی گئیں۔آگے بڑھیں، 9 مئی کے بعد 27 جون 2023 پیرس کے مضافات میں بلوے اور ہنگامے ہوئے، وہاں کا عدالتی نظام سرعت کے ساتھ حرکت میں آیا اور سخت سزائیں دی گئیں۔
ان ممالک نے ایسا اس لیے کیا تاکہ اس طرح کا واقعہ دوبارہ نہ ہو، تاکہ ملک میں مخصوص سیاسی مقاصد رکھنے والے انتشاری گروہ اور ٹولے کو دوبارہ موقع نہ ملے کہ ریاست پر اپنی مرضی سے جب چاہیں چڑھائی کردیں۔ مذکورہ ملکوں میں کسی نے کسی کی فوج پر تو حملہ نہیں کیا تھا، وہاں پر کسی نے اپنے محسن، اپنے بانی کے گھر کو تو نہیں جلایا تھا، وہاں کسی نے شہیدوں کے مجسموں اور نشانیوں کو تو آگ نہیں لگائی تھی، وہاں تو اس سے بہت کم ہوا تھا۔پھر ہم حیلے بہانوں سے 9 مئی کرنے اور کرانے والوں کے مکافات عمل کو پیچھے کیوں دھکیل رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ سوال بنتا ہے کہ کیا ہم خدانخواستہ کسی اور 9 مئی کے سانحے کا انتظار کر رہے ہیں۔
آج اگر کہا جاتا ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنادیا جائے، کمیشن تو اس چیز پر بنتا ہے جس کے بارے میں ابہام ہو، یہ واقعات تو آپ کے سامنے واضح ہیں۔جوڈیشل کمیشن بنانا تو کنفیوژن پیدا کرنا ہے،واقعہ ہوا ہے کہ نہیں ہوا۔ اگر جوڈیشل کمیشن بنانا ہے تو پھرہم ایسے کمیشن کیلئے تیار ہیںجواس پورے واقعہ کی تہہ تک جائے، اس بات کا بھی احاطہ کرے کہ 2014 کے دھرنے کے مقاصد کیا تھے، وہ اس بات کا بھی احاطہ کرے کہ پارلیمنٹ، پی ٹی وی، پر حملہ کیسے ہوا، کیسے کرایا گیا، کس طرح لوگوں کو یہ ہمت دی گئی کہ آپ ریاست کے خلاف کھڑے ہوں۔ پاسپورٹ جلائیں، سول نافرمانی کریں، بجلی کے بل جلائیں، کس طرح 2016 میں خیبر پختونخوا کے سرکاری وسائل سے دارالحکومت پرکیسے وھاوا بولا گیا، 2022 میںاسے دوبارہ کیسے دہرایا گیا۔ وہ جوڈیشل کمیشن یہ بھی دیکھے کہ کیسے آئی ایم ایف کو خطوط لکھے گئے، باہر فرمز کے ذریعے لابنگ کی گئی کہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے دیا جائے قرضہ نہ دیا جائے، کہاں سے فنڈنگ آ رہی تھی، کہاں جا رہی تھی، اس بات کا بھی کمشن میںاحاطہ کیا جائے، یہ بھی دیکھا جائے کہ وہ کون لوگ تھے جو سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف نفرت پھیلا رہے تھے۔ اگر ہم نے ان چیزوں کا احاطہ نہیں کیا تو پھر اس 9 مئی کا واقعہ ہونا ہی تھا۔ اگر ایک مخصوص سیاسی ٹولہ وقت گزرنے کے ساتھ بغیر کسی سزا کے یہ سارے کام کرتا رہے تو ایک دن وہ اپنی فوج پر ہی چڑھ دوڑے گا،اور یہ سب آپ کے سامنے ہی ہوا۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ سیاسی ٹولہ شہ ملتے ملتے یہاں تک پہنچا کہ وہ اپنی ہی فوج پہ اپنے ہی اداروں پر حملہ آور ہوگیا اور پھر ملک کے باشعور عوام 9 مئی کو دوسری جانب کھڑے تھے جس نے اپنے آپ کو اس انتشاری ٹولے سے پیچھے کرلیااوراس عمل کے خلاف اس کی مذمت کرنے لگے ۔ ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کا مقدمہ محض پاک فوج کا مقدمہ نہیں یہ عوام پاکستان کا مقدمہ ہے، یہ ہم سب کا مقدمہ ہے، 9 مئی کو کرنے اور کروانے والوں کو آئین کے مطابق سزا نہ دی گئی تو اس ملک میں کسی کی جان، مال آبرو محفوظ نہیں ہوگی، ہمیں اپنے سزا و جزا کے نظام پر اعتماد قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم 9 مئی کے ملزمان کو قانون کے مطابق سزا دیں اور جلد سے جلد دیں۔ آپ کا موجودہ فوجداری نظام ذمہ دار افراد کو پراسیکیوٹ کرے اور آئین اور قانون کے مطابق سزا دے۔ اس کیلئے ہمیں آگے بڑھنا ہے اس میں ابہام کیا ہے، اگر کمیشن بننا ہے تو اس پر بنے کہ ہم’ دھرنے تک‘ تمام واقعات کا پوچھیںایسا کیوںہوا؟انہوں نے واضح کیا جی ایچ کیو سمیت دیگر تنصیبات پر حملہ کرنے کے پیچھے پوری ایک کہانی ہے، اس کو شہہ دی گئی، اس کو چیک نہیں کیا گیا، اس کو وقت پر روکا نہیں گیا، اس پر مزید جھوٹ بولا جا رہا ہے، کمیشن بنادیا جائے تو میرا خیال ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ سوشل میڈیا اور میڈیا میں اداروں پر کچھ مخصوص سیاسی حلقے تواتر کے ساتھ فوج اور دیگر اداروں پر الزام لگاتے رہتے ہیں، ان الزامات کے جواب میں جب ثبوت مانگا جاتا ہے تو ثبوت دینے کے بجائے مزید الزام تراشی شروع کردیتے ہیں۔ اگر آئین کی بات کرتے ہیں تو آرٹیکل 19 بلاشبہ آزادی اظہار رائے کا تحفظ یقینی بناتا ہے لیکن اس کی آڑ میں چھپ کے پاکستان کی سالمیت، سیکیورٹی اور دفاع پر وار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب یہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ 8 فروری کے عام انتخابات میں عوام نے 9 مئی کو دفن کر دیا تھا لیکن یہ حقیقت نہیں۔ 8 فروری کو ٹرن آؤٹ 47 فیصد تھا تقریبا ساڑھے 6 کروڑ لوگوں نے ووٹ دیا ۔ مخصوص سیاسی پارٹی، اس کے لیڈرز جو یہ بات کرتے ہیں انہیں 1.8کروڑ ووٹ پڑے جو کہ کل ووٹوںکا 31 فیصد ہیں۔لہٰذا 70 فیصد جو ووٹ پڑا وہ اس بیانیے کو نہیں پڑا اور اگر اسے آبادی کے تناسب سے دیکھیں تو کل آبادی کا یہ ساڑھے 7 فیصد بنتا ہے۔ ہمیں یقین ہے ووٹر بھی فوج پر حملہ آور ہونے، عوام اور فوج کے درمیان نفرت پیدا کرنے اور فوج کے شہیدوں کی تضحیک کرنے کے خلاف ہے۔ عوام ہمارے ساتھ کھڑی ہے۔ جھوٹے بیانے بنتے رہیں گے، ہم حق اور سچ کے ساتھ کھڑے رہیں گے، جھوٹ پر کچھ نہیں چل سکتا۔ جو جھوٹ کا بازار گرم ہے، اس کی روک تھام کیلئے قانون سازی کی جائے،مقننہ قانون سازی کاحق رکھتی ہے ہم امید کرتے ہیں کہ موجودہ قوانین ہیں اور جو نئے بننے ہیں اس پر سختی سے عمل در آمد کروایا جائے، اگر اس کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا تو یہ مہم جوئی اس معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے گی۔