سانحہ 9 مئی کی معافی؟

 سانحہ نو مئی کو ایک برس ہو گیا ہے مگر کوئی مجرم کیفر کردار کو نہیں پہنچا یا جا سکا۔ انہیں ریلیف اور ڈھیل مل رہی ہے جبکہ نو مئی میں بلا واسطہ یا  بالواسطہ ملوث فوجی افسران کو عسکری ادارے نے فوری طور پر سزایئں سنا دی تھیں۔ سول ملزمان کو بھی ملٹری کورٹ کے حوالے کیا ہوتا تو انتشاری ٹولے کو سر اٹھانے کی جرات نہ ہوتی۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے انتشاری ٹولے کے سرغنہ کو صاف پیغام دے دیا ہے کہ پتر باقی عمر جیل میں گزار یا اپنے شر پسندوں سمیت قوم اور ادارے سے دل سے معافی مانگ۔ تجھ سے ڈیل یا رابطوں کی تیری خواہش دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوھدری کی پریس کانفرنس کا دو لفظی مطلب ’’ایبسوٹلی ناٹ‘‘ - یعنی این آر او تو دور کی بات؛ مذاکرات بھی نہیں ہو سکتے۔  ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس کانفرنس گزشتہ چند ماہ سے جاری قیاس آرائیوں کو رد کرتے ہوئے 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ قیدی 804 کیلئے ’’ایبسوٹلی ناٹ‘‘ کا واضح پیغام تھی۔ اس بات کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ نو مئی کرنے والوں کو رعایت دی جائے، جنہوں نے دشمن عناصر کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے تمام طرح کے ابہام کو ختم کر دیا ہے۔شر پسندوں کے فنڈڈ سوشل میڈیا کی تمام افواہوں کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔سانحہ نو مئی کو ایک سال گزر جانے کے بعد بھی فوج قانون کی بالادستی چاہتی ہے اور نو مئی کے ذمہ داران کو سزائیں دینے کیلئے عدالت کا منہ دیکھ رہی ہے لیکن  نہ تو نو مئی والوں کو سزا ملی ہے اور نہ ہی  سوشل میڈیائی مینڈکوں کی زبان بندی کیلئے کچھ اقدامات ہو پائے ہیں۔یہ لوگ آج بھی ڈی جی آئی ایس پی آر کی مدلل پریس کانفرنس پر جھوٹ اور فریب کا گھٹیا پروپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ریاستِ پاکستان کو جہاں سانحہ نو مئی میں ملوث عناصر کو جلد از جلد سزا دینی چاہیے وہیں ایسے سوشل میڈیا کے مینڈکوں کو بھی کنٹرول کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔اگر سول عدالتوں میں آئین اور قانون پر فوری عمل درآمد نہیں ہوتا تو نو مئی کے مقدمات ملٹری کورٹ میں چلائے جائیں۔  پھر جمہوریت اور سول اجارہ داری پارلیمنٹ بالا دستی کے ڈائیلاگ بے اثر ہوں گے۔ عسکری ادارہ بار بار یاد دہانی کر ا رہا ہے کہ نو مئی کے ملزمان کو کسی صورت معاف نہیں کیا جا سکتا جبکہ ملزمان پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ہیں ؟
9 مئی 2023ء کو جو کچھ ہوا اسکا تصور ہمارے بدترین دشمن بھی نہیں کر سکتے۔ 9 مئی اس بات کی یاد دلائے گا کہ ایک شخص اور چند گروہوں نے اپنے ذاتی ایجنڈے اور اقتدار کی ہوس میں وطن عزیز پر حملہ کیا۔سانحہ 9 مئی سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ’’ریڈ لائن‘‘ قرار دیئے گئے بانی تحریک انصاف کی گرفتاری کے ساتھ ہی طبل جنگ بجے گا۔ کوئٹہ سے چکدرہ تک سینکڑوں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ منصوبے کا اگلا مفروضہ یہ تھا کہ فوج اس یلغار کا جواب دے گی۔ خون کی ندیاں بہیں گی۔ اس کشت و خون سے تیسرا مرحلہ جنم لے گا۔ فوج کی صفوں میں اشتعال اٹھے گا۔ بغاوت کا لاوا پھوٹے گا جو جنرل عاصم منیر سمیت سب کو بہا لے جائے گا۔ ایک نیا جنرل مسند سنبھالے گا۔ جسٹس بندیال ’’گڈ ٹو سی یو‘‘ والا کردار ادا کریں گے۔ عمران خان عسکری بگھی میں وزیراعظم ہاؤس پہنچیں گے۔ انقلاب مکمل ہو جائے گا۔ مخالفین کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو کسی بھی کامیاب بغاوت کے بعد لشکری مخالفین سے کرتے ہیں‘‘۔ مگر الٹی ہو گیئں سب تدبیریں۔ فوج کی حکمت عملی صبر اور برداشت نے غداروں کے ناپاک منصوبے کو منہ پر دے مارا۔
کچھ لوگ 9 مئی کے مجرموں کو معافی کی حمایت میں لکھ اور بول رہے ہیں ؟ کیاعمران خان نے معافی مانگی ہے؟۔ نو مئی کے سنگین واقعات میں ملوث افراد غدار ہیں اور ان کو برین واش کرنے والا ان کا مرشد دشمنوں کا ٹائوٹ اور غدار ہے۔ اس کو آزاد کرنا یا دوبارہ سیاست میں آنے کی اجازت دینا ملک سے غداری ہے۔ انتقام کی سیاست کوئی پسند نہیں کرتا اور نہ ہی میاں نواز شریف انتقام لینے آئے ہیں۔ مگر سانحہ نو مئی ملک کی سالمیت اور سکیورٹی پر حملہ ہے اور ان غداروں کی سزا کے فیصلوں کا حق بھی سکیورٹی اداروں کے پاس ہونا چاہئے۔ کبھی غدار کو صادق و آمین کا سرٹیفکیٹ بھی دیا گیا تھا۔ اور آج فارن فنڈنگ کیس سے لے کر عثمان بزدار مانیکا گینگ تک کرپشن کے ریکارڈ بھی ٹوٹ رہے ہیں۔
نو مئی کے حملے نواز شریف کے گھر پر نہیں ہوئے تھے۔ یہ حملے سکیورٹی ادارے کی رٹ اور فوجی تنصیبات پر ہوئے تھے ، نواز شریف کے پاس معافی کا اختیار ہے اور نہ وہ معاف کر سکتے ہیں۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس کانفرنس میں دو ٹوک الفاظ میں پیغام پہنچا دیا ہے کہ مجرم صدق دل سے معافی مانگیں اور مہذب طریقہ سیاست اختیار کریں اور انصاف کی عملداری میں ملزمان کو آئین اور قانون کے مطابق سزائیں دی جائیں ورنہ انصاف تو ہو کر رہے گا۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...