امیر حکمران، غریب عوام، کہیں وسائل اور کہیں مسائل کی کمی نہیں !!!!!

دیکھیں پاکستان کے مسائل کی بہت بڑی وجہ حکمران طبقے کے قول و فعل میں تضاد ہیں۔ حکمران جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں اور جو وہ کرتے ہیں وہ عوام کو بتاتے نہیں ہیں۔ یعنی اگر وہ قوم کو ایمانداری کا درس دیتے ہیں تو کیا وہ خود سارے کام ایمانداری سے کرتے ہیں، اگر وہ قوم کو سچ بولنے کا درس دیتے ہیں تو کیا وہ خود سچ بولتے ہیں، اگر وہ عوام کو قانون پر عمل کا کہتے ہیں تو کیا وہ خود قانون پر عمل کرتے ہیں، حکمران عوام کو آئین، آئین اور آئین بتاتے رہتے ہیں کیا وہ خود آئین پر عمل کرتے ہیں، حکمران عوام کو فرض شناسی کا درس دیتے ہیں کیا وہ خود بحثیت حکمران فرائض ادا کرتے ہیں، حکمران عوام کو سادگی، کفایت شعاری کا درس دیتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا یے کہ ذاتی حیثیت تو ایک طرف کیا وہ حکومتی اخراجات میں سادگی اور کفایت شعاری سے کام لیتے ہیں، یقینا ایسا نہیں ہے، چلیں حکمران طبقے کے ذاتی اخراجات یا طرز زندگی کو ایک طرف رکھ چھوڑیں اگر صرف طرز حکمرانی اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو ہی دیکھ لیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عام آدمی کو سادگی کا درس صرف اور صرف زخموں پر نمک پاشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بجلی کی بچت کرنے کی ضرورت ہے تو حکمران اس معاملے میں مثال قائم کیوں نہیں کرتے، کیا ان کے گھروں میں بجلی کی بچت مہم نظر آتی ہے، کیا ان کے سرکاری دفاتر میں بجلی بچانے کی مہم نظر آتی ہے، کیا سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بجلی بچانے کی مہم کے حوالے سے کبھی کوئی کام ہوتا نظر آیا ہے، حکمران طبقہ کیوں ہر قربانی عام آدمی سے مانگتا ہے، حکمران کیوں ہر وقت عام آدمی کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ اس نے ہر وقت بچت ہی کرنی ہے جب کہ عین اسی وقت ملک پر حکومت کرنے والے فضول خرچیوں کی نئی داستان رقم کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا اس طرز عمل دوہرے رویوں، قول و فعل میں تضاد سے ملکی مسائل کبھی حل ہو سکیں گے، یقینا ایسا نہیں ہو گا، جب تک سادگی دماغ میں نہیں ہو گی، سوچ نہیں ہو گی اس وقت تک کوئی بہتری بھی نہیں ہو سکتی ۔ یہاں سوچتے انگریزی میں ہیں، بات اردو میں کرتے رہتے ہیں، رہتے سینکڑوں کنال کے گھروں میں ہیں، مقدمہ ان کا لڑتے ہیں جن کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے وسائل نہیں ہیں، خود گرمیوں میں ایئر کنڈیشنز سے دور نہیں ہوتے نمائندگی ان کی کرتے ہیں جنہیں پنکھے کی ہوا بھی میسر نہیں ہے، ایک مرتبہ جو لباس استعمال کر لیں مہینوں دوسری مرتبہ وہ لباس نہ پہنیں، نمائندے ان کے بنتے ہیں جنہیں سال بعد عید کے موقع پر بھی نیا لباس میسر نہیں ہوتا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ حکمران طبقے کے پاس اگر بہت دولت ہے تو وہ زندگی کو آسان نہ بنائیں لیکن بنی گالہ کا محل، جاتی امراء کا محل اور ملک کے مختلف شہروں میں بلاول ہاؤس کے مکینوں کو جب تک یہ احساس نہیں ہو گا کہ ان کی نظر آنے والی زندگی عام آدمی میں احساس محرومی پیدا کرتی ہے اور وہ جو دولت جمع کرتے چلے جا رہے ہیں اپنی ضرورت سے زائد یہ دولت انہیں لوگوں میں تقسیم کرنی ہے، ان کا کردار اس معاملے میں ایک ڈاکیے کا ہے کہ جو چٹھی اس کے پاس آتی ہے وہ اسے متعلقہ شخص تک پہنچاتا ہے۔ کیا یہ حکمرانوں کی بنیادی ذمہ داری نہیں ہے کہ انہوں نے اس ملک سے جمع کی گئی دولت کو صرف اپنے بچوں کے لیے ہی چھوڑ کر جانا ہے، کچھ اس ملک کو واپس لوٹانا بھی ہے یا نہیں۔ 
یہاں ایک واقعہ بیان کرتا ہوں قصہ کچھ یوں ہے کہ جواہر لال کے والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا، نوابوں جیسی پرورش کی، کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آ گئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دئیے لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے. والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو ان نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیئے اور ان کی جگہ کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دئیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی، جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیا گیا، فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحبزادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا گیا۔ جواہر لال نہرو نے جب اپنے کمرے کا یہ حال دیکھا تو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے، بڑے نہرو صاحب اس وقت اسٹڈی میں "ٹالسٹائی" کا ناول "وار اینڈ پیس" پڑھ رہے تھے بیٹے نے پوچھا آپ مجھ سے خفا ہیں...؟موتی لال نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا، میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا، چھوٹے نہرو نے پوچھا؛
پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا. والد نے بیٹے سے کہا صاحب زادے، تم نے جو راستہ چنا ہے اس میں جیل، بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو جو اس راستے میں تمہیں پیش آنے والی ہیں. دوسرا یہ کہ غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں. تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے۔ تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔ میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے. چنانچہ تم آج سے وہ کپڑے  پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے  پیسے  ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں. جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اور پھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا. ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے۔ پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق عموماً بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے، یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں، ان کا گلوبل ایکسپوڑر بھی ہوتا ہے اور انہیں پیسے کی بھوک نہیں ہوتی لیکن یہ لوگ جب سیاست میں آتے ہیں تو سادگی اور غریب پروری کا تحفہ ساتھ لے کر آتے ہیں. یہ عام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے. ہم گندی سیاست کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں. ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کی قیادت کا طرز زندگی اور ان کی شخصیت ان کی  باتوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔
ہزاروں کنال کے بنگلوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والے، دنیا بھر کی مراعات و پروٹوکول لینے والے، بیرون ملک بڑے گھر اور بینک بیلنس رکھنے والے بلٹ پروف گاڑی اور جہاز و ہیلی کاپٹر کو گلی کے موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے حکمران یک غریب ملک کے رہنما نہیں ہو سکتے۔ اگر رہنما لینا ہے تو غریب عوام سے لیں جو عام شہریوں کی طرح پانچ سات مرلہ کے گھر میں رہے، جرمن چانسلر اینجلا کی طرح دو تین سوٹوں اور ایک ہی کوٹ کیساتھ پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرے لیکن دنیا بھر میں کروڑوں ہی لوگوں کو اپنے کردار سے اپنا گرویدہ بنا لے۔ میں اس سے کہیں بہتر مثالیں اسلامی تاریخ سے دے سکتا تھا لیکن یہ مثال کسی خاص مقصد کے تحت ہے کاش کہ حکمران اور عوام سبق حاصل کریں۔
آخر میں احمد ندیم قاسمی کا کلام
میں کسی شخص سے  بیزار نہیں ہو سکتا
ایک ذرہ بھی  تو بیکار نہیں  ہو سکتا
اس قدر پیار ہے انساں کی خطاؤں سے مجھے
کہ فرشتہ مرا معیار نہیں  ہو سکتا
 اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے
تیرا شہکار تو فی  النار نہیں ہو سکتا
اے حقیقت کو فقط خواب سمجھنے والے
تو کبھی صاحب اسرار نہیں ہو سکتا
تو کہ اک موج نکہت سے بھی چونک اٹھتا ہے
حشر آتا ہے تو بیدار نہیں ہو سکتا
سر دیوار یہ کیوں  نرخ کی تکرار ہوئی
گھر  کا آنگن کبھی بازار نہیں ہو سکتا
راکھ سی مجلس اقوام کی چٹکی میں ہے کیا
کچھ بھی ہو یہ مرا پندار نہیں ہو سکتا
اس حقیقت کو سمجھنے میں لٹایا کیا کچھ
میرا دشمن مرا غم خوار نہیں ہو سکتا
میں نے بھیجا ہے تجھے ایوان حکومت میں مگر
اب تو برسوں ترا دیدار نہیں ہو سکتا
تیرگی چاہے ستاروں کی سفارش لائے
رات سے مجھ کو سروکار نہیں ہو سکتا
وہ جو شعروں میں ہے اک شے پس الفاظ ندیم
اس کا  الفاظ  میں  اظہار  نہیں  ہو  سکتا

ای پیپر دی نیشن