ترکیہ کے وزیرِ تجارت عمر بولات نے جمعرات کو کہا، اسرائیل کے ساتھ تجارتی پابندیوں میں انقرہ کی طرف سے نرمی کرنے کے اسرائیلی دعوے "بالکل فرضی ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔" انقرہ نے اسرائیل کے ساتھ موجودہ برآمدی سودے کرنے والی کمپنیوں کے لیے تین ماہ کی مہلت متعارف کرائی ہے۔اسرائیل کے وزیرِ خارجہ نے جمعرات کو کہا کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن اپنے سابقہ مؤقف سے پسپا ہو گئے اور انہوں نے اسرائیل پر عائد کئی تجارتی پابندیاں ہٹا دیں۔فلسطینی علاقوں میں "بدتر ہوتے ہوئے انسانی المیے" کا حوالہ دیتے ہوئے ترکیہ نے گذشتہ ہفتے اسرائیل سے تمام برآمدات اور درآمدات روک دی تھیں۔بولات نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا، اسرائیل کے ساتھ ترکیہ کی تجارتی پابندی برقرار رہے گی جب تک غزہ میں مستقل جنگ بندی اور خطے میں انسانی امداد کی روانی کو محفوظ نہ بنایا جائے۔"رائٹرز کی ملاحظہ کردہ ایک دستاویز میں وزارتِ تجارت نے تجارتی پابندی متعارف کروانے کے بعد اسرائیل کو برآمد کرنے والی کمپنیوں کے لیے تین ماہ کی مہلت کا خاکہ پیش کیا۔ترک وزارتِ تجارت کے ایک ذریعے نے کہا، کمپنیوں کے پاس تیسرے ممالک کے ذریعے موجودہ آرڈرز کو پورا کرنے کے لیے تین ماہ کا وقت ہے۔ ذریعے نے مزید کہا کہ اسرائیل کو برآمدات پر ترکیہ کی پابندی میں نرمی کا "سوال ہی پیدا نہیں" ہوتا۔وزارت کے ایک اور ذریعے نے بتایا، تازہ ترین اقدامات کا مقصد ترک تاجروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔یردوآن نے گذشتہ ہفتے ترک کاروباری افراد سے کہا تھا کہ انقرہ اپنی کاروباری دنیا کے ساتھ "ہم آہنگی اور بات چیت" کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعطل سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹے گا۔ترک صدارت کے مواصلاتی ڈائریکٹوریٹ نے بھی ایک بیان میں کہا، "ترکیہ کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تجارتی پابندیوں میں نرمی کے دعووں کا مقصد "بین الاقوامی رائے عامہ کو مسخ کرنا ہے۔"ترکیہ اور اسرائیل کے درمیان 2023 میں تجارتی حجم 6.8 بلین ڈالر تھا۔