شبیر احمد گوندل .............
اقبالؒ نے نثر میں اپنے افکار کو بہت کم پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی فکر کبھی سوز دروں سے خالی نہیں ہوتی تھی۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ رومیؒ جیسا عارف رہتا تھا جس کی فکر کا ساز بے سوز نہ تھا۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ؎
حق اگر سوزے ندارد حکمت است........... شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
یہ سوز آتش نوائی اقبالؒ کی فطرت میں رچ بس گئی تھی چنانچہ سوزِ دروں کے سبب ان کی فطری سیماب پائی نے انہیں سخنوری کے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں شاعری بقول خلیفہ عبدالحکیم ’’جزو پیغمبری‘‘ بن جایا کرتی ہے اور جب شاعری رفعت کی اس حقیقی منزل کو پالیتی ہے تو ’’فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی‘‘۔
اقبال کے نزدیک ان کے کلام میں یہ سب کچھ ’’سوز وتب و تاب اول، سوزو تب و تاب آخر‘‘ کا منطقی نتیجہ ہے۔
اقبالؒ کی شاعری تین ادوار پر مشتمل ہے۔ دور اول: غفوان جوانی تا 1905 دور دوم:1905 تا1908 اور دور سوم 1908 تا دم واپسیں …اقبالؒ اپنی شاعری کے تینوں ادوار میں بسمل کی طرح تڑپتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ہر دور میں’’دے دے کے لہو طرحِ نقش کف پا ڈالی‘‘ کی تفسیر و تصویر نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے تمام ادوار میں ’’بحر سوز‘‘ کے عمق سے خودی کا در نایاب تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ملت اسلامیہ کیلئے بالعموم اور مسلم نوجوان کیلئے بالخصوص ایسے ہی کرب و سوز کے متمنی دکھائی دیتے ہیں جس کی ایک ہی کسک آئنہ بصیرت کو صیقل کر دے۔
اقبالؒ کی شاعری کا پہلا دور بجا طور پر مشق و تقلید کا دور ہے۔ ادیب اور شاعر جان گئے تھے کہ شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا ہے جس کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ آگے چل کر مہتاب و آفتاب بننے والا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبالؒ نے ایک طویل نظم پڑھی جس کے ہر شعر میں فکر و تخیل کا انوکھا پن تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس جلسے میں موجود تھے۔ نظم سننے کے بعد برملا فرمایا:
’’جب حالی اور آزاد کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبالؒ کو ڈھونڈیں گے‘‘ بصیرت شبلیؒ کو اس برملا تبصرے پرداد دینی چاہئے لیکن مولانا شبلی کو کیا خبر تھی کہ اقبالؒ نہ صرف حالی اور آزاد کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے بلکہ آئندہ کئی صدیوں تک چشم آرزو اس جیسے دانائے راز کو دیکھنے کیلئے ترستی رہے گی 1905ء میں اقبالؒ کی عمر تقریباً تیس برس تھی۔ اس عمر تک کسی ذہین و فطین انسان کے افکار و جذبات کے سانچے بہت حد تک بن چکے ہوتے ہیں۔ اس عمر کے بعد شاذو نادر ہی کسی شخص کے افکار میں کوئی بنیادی تبدیلی آتی ہے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس عمر تک لگے ہوئے بعض پودے بعد میں مزید نشوونما سے بلند و بالا نخل بن جائیں اور ان میں کثرت سے برگ و بار اور شگوفہ و اثمار نکلیں یا یہ کہ اس عمر تک بعض باتیں طبیعت کی زمین میں ابھی تک خاک پوش تخم کی طرح موجود ہوں اور آگے چل کر وہ کھلی فضا میں پھلیں اور پھولیں۔ اس عمر تک اقبالؒ کا کلام سو سے کچھ زائد صفحات پر مشتمل ’’ بانگ درا‘‘ میں ملتا ہے۔ ابھی شاعری ’’جزو پیغمبری‘‘ نہیں بنی۔ شاعر جس چیز سے متاثر ہوتا ہے۔ اس پر شعر کہہ دیتا ہے لیکن ان نظموں میں بھی افکار کی وسعت، گہرائی اور تنوع موجود ہے۔ ان نظموں میں بھی وہ اقبالؒ ملتا ہے جو دل کی بصیرت اور وجدان کو حسی ادراک اور استدلال عقل پر فائق سمجھتا ہے۔ جا بجا خودی ابھرتی نظر آتی ہے۔ ذوق انقلاب و ارتقاء ناپید نہیں۔ وطن کی شدید محبت اور تصوف کے روایتی مضامین کے ساتھ اپنا مخصوص عرفان ذات بھی جابجا ملتا ہے۔ اقبالؒ جو کچھ بعد میں بنا اس کی داغ بیل بھی ان نظموں میں موجود ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر ابھی کسی پختہ یقین پر نہیں پہنچا۔ وہ ابھی راز حیات کو ٹٹولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ ابھی تک یقین و گمان کی آویزش سے نہیں نکلا۔ اسے زندوں سے جواب نہیں ملتا تو خفتگانِ خاک سے استفسار کرتا ہے۔ ’’زہد اور رندی‘‘ میں اقبالؒ نے جو کچھ کہا وہ اس زمانے میں اقبالؒ کی طبیعت کا صحیح نقشہ ہے۔ یہ وہ دور ہے جب زندگی اقبالؒ کیلئے ایک معمہ ہے۔ گہرے خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن حقیقت کہ تہہ کو نہیں پہنچتے، راز حیات کا انکشاف نہیں ہوتا اور اقبالؒ اس کے سوا کچھ نہیں کہہ پاتے:
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے.......... کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے
عرفان ذات کا یہ سفر جاری ہے۔ اسکا اعتراف یوں کرتے ہیں:
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو ........... آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
اقبالؒ 1905ء میں حصول علم کیلئے عازم فرنگ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقبالؒ کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔
اس دور میں اقبالؒ کے کلام میں سوزِ دروں کی جولانیاں نظر آتی ہیں۔ انہیں روحانی سوز و گداز سے خالی مغرب کی ظاہری چکاچوند متاثر نہیں کرتی۔ فرماتے ہیں:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانش فرنگ..... سرمہ ہے میری آنکھ کا مدینہ و نجف
سوزِ دروں کے مضراب سے پھوٹنے والے تار اقبالؒ کو لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی کی پاسداری پر مجبور کرتے ہیں وہ تہذیبِ مغرب سے ہرگز متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کی چشمِ بینا اہلِ یورپ کو متنبہ کر رہی تھی کہ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی...... جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
اقبالؒ کی شاعری کا تیسرا دور 1908ء میں یورپ سے واپسی پر شروع ہوا۔ واپسی کیا ہوئی دل میں حرف آرزو کے مزار سے گفتگو کا وہ محشر اٹھا کہ ہندوستان کا ہر پیر و جوان پکار اٹھا:
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا...... گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
اقبالؒ فرنگی فرعون کیلئے موسٰیؑ ثابت ہوئے۔ ان کا قلم عصائے موسٰیؑ اور ان کا سوز دروں یدِ بیضا کی صورت سامنے آیا۔ وہ اب تک جس آگ میں جل رہے تھے اس آگ کی تپش سے اپنی ملت کے دلوں کو گرمانے کا عزمِ صمیم لے کر وہ یورپ سے ہندوستان لوٹے:
گرم رکھتا تھا ہمیں سردیِٔ مغرب میں جو داغ...... چیر کر سینہ اسے وقتِ تماشا کر دیں
اقبالؒ کی آتش نوائی فرنگی و برہمن کیلئے ایندھن اور ملتِ اسلامیہ کیلئے روشنی کا مینار ثابت ہوئی۔ انہوں نے یورپ سے واپسی کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا:
اقبال کا ترانہ بانگِ دراء ہے گویا.... ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
اقبالؒ نے راہ گم گشتہ مسلمان کو احساس دلایا کہ:
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی.... ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
لیکن اپنی منزل کو پانے کیلئے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانا ہو گا۔ سوز دروں کی سیڑھی کے بغیر چرخِ نیلی فام سے پرے کی منزل تک رسائی ناممکن ہے۔ اس کیلئے اپنے لہو کی آگ میں جلنا ہو گا اور اگر ایسا ہو جائے تو حیاتِ جاوداں پر تمہارے سوا کسی کا حق نہیں:
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی..... یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
اقبالؒ مر کر بھی نہ مر سکے بلکہ بدنی موت نے تو انہیں اور زندہ کر دیا۔ انہوں نے اپنی منزل کو پا لیا سوزِ دروں نے سارے پردے ہی وا کر دئیے۔ حسن و عشق، خودی و بیخودی، ناز و نیاز، ادیان و اوطان… حقیقتِ حال روشن ہو گئی اور اقبالؒ ’’دانائے راز‘‘ بن گئے۔ آج اگر وہ اس مقام پر ہیں تو اس کے پیچھے ’’سوزِ دروں‘‘ میں جلنے اور تڑپنے کی طویل داستان ہے کیونکہ جب تک انسان ’’سوزِ دروں‘‘ کی بھٹی سے نہیں گزرتا وہ کندن نہیں بن سکتا۔ اقبالؒ اسکا برملا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں...... کبھی سوز و سازِ رومیؒ، کبھی پیچ و تابِ رازیؒ
اقبالؒ نے نثر میں اپنے افکار کو بہت کم پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی فکر کبھی سوز دروں سے خالی نہیں ہوتی تھی۔ ان کے پیش نظر ہمیشہ رومیؒ جیسا عارف رہتا تھا جس کی فکر کا ساز بے سوز نہ تھا۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ؎
حق اگر سوزے ندارد حکمت است........... شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
یہ سوز آتش نوائی اقبالؒ کی فطرت میں رچ بس گئی تھی چنانچہ سوزِ دروں کے سبب ان کی فطری سیماب پائی نے انہیں سخنوری کے ایسے مقام پر لا کھڑا کیا جہاں شاعری بقول خلیفہ عبدالحکیم ’’جزو پیغمبری‘‘ بن جایا کرتی ہے اور جب شاعری رفعت کی اس حقیقی منزل کو پالیتی ہے تو ’’فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی‘‘۔
اقبال کے نزدیک ان کے کلام میں یہ سب کچھ ’’سوز وتب و تاب اول، سوزو تب و تاب آخر‘‘ کا منطقی نتیجہ ہے۔
اقبالؒ کی شاعری تین ادوار پر مشتمل ہے۔ دور اول: غفوان جوانی تا 1905 دور دوم:1905 تا1908 اور دور سوم 1908 تا دم واپسیں …اقبالؒ اپنی شاعری کے تینوں ادوار میں بسمل کی طرح تڑپتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ہر دور میں’’دے دے کے لہو طرحِ نقش کف پا ڈالی‘‘ کی تفسیر و تصویر نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے تمام ادوار میں ’’بحر سوز‘‘ کے عمق سے خودی کا در نایاب تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ ملت اسلامیہ کیلئے بالعموم اور مسلم نوجوان کیلئے بالخصوص ایسے ہی کرب و سوز کے متمنی دکھائی دیتے ہیں جس کی ایک ہی کسک آئنہ بصیرت کو صیقل کر دے۔
اقبالؒ کی شاعری کا پہلا دور بجا طور پر مشق و تقلید کا دور ہے۔ ادیب اور شاعر جان گئے تھے کہ شاعری کے افق پر ایک نیا ستارہ طلوع ہوا ہے جس کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ آگے چل کر مہتاب و آفتاب بننے والا ہے۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں اقبالؒ نے ایک طویل نظم پڑھی جس کے ہر شعر میں فکر و تخیل کا انوکھا پن تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس جلسے میں موجود تھے۔ نظم سننے کے بعد برملا فرمایا:
’’جب حالی اور آزاد کی کرسیاں خالی ہوں گی تو لوگ اقبالؒ کو ڈھونڈیں گے‘‘ بصیرت شبلیؒ کو اس برملا تبصرے پرداد دینی چاہئے لیکن مولانا شبلی کو کیا خبر تھی کہ اقبالؒ نہ صرف حالی اور آزاد کو بہت پیچھے چھوڑ جائیں گے بلکہ آئندہ کئی صدیوں تک چشم آرزو اس جیسے دانائے راز کو دیکھنے کیلئے ترستی رہے گی 1905ء میں اقبالؒ کی عمر تقریباً تیس برس تھی۔ اس عمر تک کسی ذہین و فطین انسان کے افکار و جذبات کے سانچے بہت حد تک بن چکے ہوتے ہیں۔ اس عمر کے بعد شاذو نادر ہی کسی شخص کے افکار میں کوئی بنیادی تبدیلی آتی ہے البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس عمر تک لگے ہوئے بعض پودے بعد میں مزید نشوونما سے بلند و بالا نخل بن جائیں اور ان میں کثرت سے برگ و بار اور شگوفہ و اثمار نکلیں یا یہ کہ اس عمر تک بعض باتیں طبیعت کی زمین میں ابھی تک خاک پوش تخم کی طرح موجود ہوں اور آگے چل کر وہ کھلی فضا میں پھلیں اور پھولیں۔ اس عمر تک اقبالؒ کا کلام سو سے کچھ زائد صفحات پر مشتمل ’’ بانگ درا‘‘ میں ملتا ہے۔ ابھی شاعری ’’جزو پیغمبری‘‘ نہیں بنی۔ شاعر جس چیز سے متاثر ہوتا ہے۔ اس پر شعر کہہ دیتا ہے لیکن ان نظموں میں بھی افکار کی وسعت، گہرائی اور تنوع موجود ہے۔ ان نظموں میں بھی وہ اقبالؒ ملتا ہے جو دل کی بصیرت اور وجدان کو حسی ادراک اور استدلال عقل پر فائق سمجھتا ہے۔ جا بجا خودی ابھرتی نظر آتی ہے۔ ذوق انقلاب و ارتقاء ناپید نہیں۔ وطن کی شدید محبت اور تصوف کے روایتی مضامین کے ساتھ اپنا مخصوص عرفان ذات بھی جابجا ملتا ہے۔ اقبالؒ جو کچھ بعد میں بنا اس کی داغ بیل بھی ان نظموں میں موجود ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ شاعر ابھی کسی پختہ یقین پر نہیں پہنچا۔ وہ ابھی راز حیات کو ٹٹولتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ ابھی تک یقین و گمان کی آویزش سے نہیں نکلا۔ اسے زندوں سے جواب نہیں ملتا تو خفتگانِ خاک سے استفسار کرتا ہے۔ ’’زہد اور رندی‘‘ میں اقبالؒ نے جو کچھ کہا وہ اس زمانے میں اقبالؒ کی طبیعت کا صحیح نقشہ ہے۔ یہ وہ دور ہے جب زندگی اقبالؒ کیلئے ایک معمہ ہے۔ گہرے خیالات پیدا ہوتے ہیں لیکن حقیقت کہ تہہ کو نہیں پہنچتے، راز حیات کا انکشاف نہیں ہوتا اور اقبالؒ اس کے سوا کچھ نہیں کہہ پاتے:
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے.......... کچھ اس میں تمسخر نہیں، واللہ نہیں ہے
عرفان ذات کا یہ سفر جاری ہے۔ اسکا اعتراف یوں کرتے ہیں:
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو ........... آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
اقبالؒ 1905ء میں حصول علم کیلئے عازم فرنگ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقبالؒ کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔
اس دور میں اقبالؒ کے کلام میں سوزِ دروں کی جولانیاں نظر آتی ہیں۔ انہیں روحانی سوز و گداز سے خالی مغرب کی ظاہری چکاچوند متاثر نہیں کرتی۔ فرماتے ہیں:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانش فرنگ..... سرمہ ہے میری آنکھ کا مدینہ و نجف
سوزِ دروں کے مضراب سے پھوٹنے والے تار اقبالؒ کو لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی کی پاسداری پر مجبور کرتے ہیں وہ تہذیبِ مغرب سے ہرگز متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کی چشمِ بینا اہلِ یورپ کو متنبہ کر رہی تھی کہ:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی...... جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا
اقبالؒ کی شاعری کا تیسرا دور 1908ء میں یورپ سے واپسی پر شروع ہوا۔ واپسی کیا ہوئی دل میں حرف آرزو کے مزار سے گفتگو کا وہ محشر اٹھا کہ ہندوستان کا ہر پیر و جوان پکار اٹھا:
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا...... گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
اقبالؒ فرنگی فرعون کیلئے موسٰیؑ ثابت ہوئے۔ ان کا قلم عصائے موسٰیؑ اور ان کا سوز دروں یدِ بیضا کی صورت سامنے آیا۔ وہ اب تک جس آگ میں جل رہے تھے اس آگ کی تپش سے اپنی ملت کے دلوں کو گرمانے کا عزمِ صمیم لے کر وہ یورپ سے ہندوستان لوٹے:
گرم رکھتا تھا ہمیں سردیِٔ مغرب میں جو داغ...... چیر کر سینہ اسے وقتِ تماشا کر دیں
اقبالؒ کی آتش نوائی فرنگی و برہمن کیلئے ایندھن اور ملتِ اسلامیہ کیلئے روشنی کا مینار ثابت ہوئی۔ انہوں نے یورپ سے واپسی کے ساتھ ہی یہ اعلان کر دیا:
اقبال کا ترانہ بانگِ دراء ہے گویا.... ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
اقبالؒ نے راہ گم گشتہ مسلمان کو احساس دلایا کہ:
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی.... ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے
لیکن اپنی منزل کو پانے کیلئے اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانا ہو گا۔ سوز دروں کی سیڑھی کے بغیر چرخِ نیلی فام سے پرے کی منزل تک رسائی ناممکن ہے۔ اس کیلئے اپنے لہو کی آگ میں جلنا ہو گا اور اگر ایسا ہو جائے تو حیاتِ جاوداں پر تمہارے سوا کسی کا حق نہیں:
ہو اگر خود نگر و خود گر و خود گیر خودی..... یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
اقبالؒ مر کر بھی نہ مر سکے بلکہ بدنی موت نے تو انہیں اور زندہ کر دیا۔ انہوں نے اپنی منزل کو پا لیا سوزِ دروں نے سارے پردے ہی وا کر دئیے۔ حسن و عشق، خودی و بیخودی، ناز و نیاز، ادیان و اوطان… حقیقتِ حال روشن ہو گئی اور اقبالؒ ’’دانائے راز‘‘ بن گئے۔ آج اگر وہ اس مقام پر ہیں تو اس کے پیچھے ’’سوزِ دروں‘‘ میں جلنے اور تڑپنے کی طویل داستان ہے کیونکہ جب تک انسان ’’سوزِ دروں‘‘ کی بھٹی سے نہیں گزرتا وہ کندن نہیں بن سکتا۔ اقبالؒ اسکا برملا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں...... کبھی سوز و سازِ رومیؒ، کبھی پیچ و تابِ رازیؒ