علامہ اقبال نے قائداعظم کو ”خضر وقت“ قرار دیا ہے
خضر وقت از خلوت دشت حجاز آید بروں
کارواں زیں وادی دور و دراز آید بروں
ماہر اقبالیات پروفیسر محمد منور اپنی کتاب ”قرطاس اقبال“ ص 62 میں لکھتے ہیں کہ ”اقبال نے 1937ءمیں پنڈت نہرو اور میاں افتخار الدین سے ملاقات کے دوران زور دے کر کہا کہ ’میں قائداعظم کا ایک ادنیٰ سپاہی ہوں‘ تقریباً یہی بات قائداعظم نے یوم اقبال 1941ءمیں کہی کہ ”مجھے فخر ہے کہ مجھے ان (اقبال) کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے، میں نے ان سے زیادہ وفادار، رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔“ قائداعظم نے اسی تقریر کے دوران مزید فرمایا کہ ”اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ اقبال مرحوم دنیا کے بہت بڑے سیاستدان تھے۔ انہوں نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے جس سے بہتر اور راستہ نہیں، مرحوم دور حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی شخص نے نہیں سمجھا۔“ قائداعظم نے یوم اقبال کی تقریب 1944ءمیں فرمایا کہ اگرچہ آج اقبال ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کا غیر فانی کلام ہمارے دلوں کو گرماتا رہے گا۔ ان کی شاعری جو کہ حُسن بیان کے ساتھ حُسن معانی کی بھی آئینہ دار ہے اس عظیم شاعر کے دل و دماغ میں ان پنہاں جذبات، حسیات اور افکار کی بھی عکاس ہے کہ جن کا سرچشمہ اسلام کی سرمدی تعلیم ہے۔ اقبال پیغمبر اسلام کے سچے اور مخلص پیروکار تھے، وہ اول و آخر مسلمان تھے اور اسلام کے صحیح مفسر“ --- ”وہ اسلام کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے ساتھ سعی پیہم، ان کی مسلسل جدوجہد، ان کے پیغام کا جزو لاینفک تھا اس لحاظ سے وہ اسلامیت کا نمونہ تھے جہاں انہیں اسلام کے مقاصد سے شفتگی اور عقیدت تھی وہاں ان چند لوگوں میں سے تھے جنہوں نے پہلے پہل ایک اسلامی سلطنت کا خواب دیکھا تھا، ایک ایسی مملکت جو کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور جنوب مشرقی خطوں پر مشتمل ہو گی جو کہ تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کا وطن سمجھے جاتے ہیں۔ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے جن کی جھلک ان کے کلام میں موجود ہے تاکہ ہم بالآخر پاکستان حاصل کر کے انہی اصولوں کو اپنی مکمل طور پر خود مختار اور آزاد مملکت میں جاری و ساری کر سکیں۔“
قائداعظم نے 26 دسمبر 1938ءکو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس بمقام پٹنہ میں صدارتی خطاب کے دوران فرمایا :
”علامہ اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور ان کا شمار دنیا کے عظیم شعراءمیں ہوتا ہے۔ وہ اس وقت تک رہیں گے جب تک اسلام زندہ رہے گا۔ ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی خواہشات کی صحیح عکاسی کرتی ہے۔ ان کی شاعری ہمارے لئے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ کا کام دے گی“ --- قائداعظم نے مزید فرمایا کہ ”میرے لئے وہ ایک رہنما، دوست اور فیلسوف تھے اور تاریک ترین لمحوں میں جن سے مسلم لیگ کو گزرنا پڑا وہ چٹان کی قائم رہے۔“
سید مطلوب الحسن لکھتے ہیں کہ 23 مارچ 1940ءکی قرارداد پاکستان منظور ہونے کے بعد قائداعظم نے فرمایا کہ ”آج اقبال زندہ ہوتے تو کس قدر خوش ہوتے کہ ہم نے آخرکار وہی کچھ کیا جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے تھے۔“ قائداعظم نے کلام اقبال کی تاثیر اور اثرات کے حوالے سے کہا کہ ”میرے پاس سلطنت نہیں لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کروں گا۔“ قائداعظم کو خوش قسمتی سے سلطنت بھی ملی اور کلام اقبال حاصل رہا۔ کلام اقبال کئی کئی سلطنتیں پیدا کرنے کا سبب ہے اور تاقیامت کرتا رہے گا۔ پاکستان کا قیام ہو یا انقلاب ایران، افغانستان کی مزاحمت ہو یا عالم عرب کی بیداری، اُمت مسلمہ کی وحدت ہو یا احیائے اسلام کی نوید، کلام اقبال ہرسُو انقلابات کا محرک رہا ہے۔ بھارت کے اچھوت لیڈر وی ٹی راج شیکھر کلام اقبال کی تاثیر کے حوالے سے ”دلت وائس“ میں لکھتے ہیں کہ بھارت کے کروڑوں اچھوت اقوام کا شاعر انقلاب بھی کلام اقبال ہی ہو سکتا ہے :
آہ شودر کے لئے ہندوستان غم خانہ ہے
درد انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے