یوم اقبال پر قوم کےلئے تحفہ

 وفاقی وزیر و چیئرپرسن ” بینظیر انکم سپورٹ پروگرام“
آج قوم شاعر مشرق ، عظیم مفکراور پاکستان کا تصور دینے والی شخصیت سر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی سالگرہ منا رہی ہے۔ وہ ایک مدبر قانون ساز اور قابل سیاستدان تھے جنہوں نے نظریہءپاکستان کو فکری اساس فراہم کی جو آگے چل کر پاکستان کے حصول کا ذریعہ بنی ۔ایک عظیم فکری شخصیت کی حیثیت سے علامہ اقبال نے فلسفہءخودی پر زور دیا ہے یعنی انسانی فطرت کی قدرت اور خداکی ذات سے وابستہ سوچ آگے چل کر صحیح معنوں میں انسان کی ترقی کا باعث بنتی ہے ۔
 اقبال کی خودی کے عناصر ترکیبی میں خودداری، عظمت، اپنی پہچان اور اشرف المخلوقات ہونے کہ صفت شامل ہے۔خودی کا احساس آسمانوں سے نہیں اترتا بلکہ یہ ہماری طرز معاشرت، ہماری تربیت، ہماری تعلیم اور ہمارے تجربات و مشاہدات سے اخذ کیا جاتا ہے۔علامہ اقبال کی فکر کے مطابق پاکستان ایک ایسا جداگانہ ملک ہوگا جس میں اپنے شہریوں، اپنے باشندوں کا ہر طرح کی عزت و احترام سے خیال رکھا جائے گا۔ ملک کے تمام لوگوں کا اسلامی تشخص اور روایات کے مطابق ایسا خیال رکھنا ہوگا کہ سب کو تعمیر و ترقی کے برابر موقع ملیں اور ملک صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بن جائے۔
اقبال کا خیال تھا کہ یہ نیا ملک جنوبی ایشیاءکے وسط میں واقع ہوگا اور اردگرد کے ملکوں کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات استوار رکھے گا اور یہاں کے لوگ باہمی عزت و احترام اور محبت کے رشتوں میں بندھے ہوئے ہوں گے۔ اقبال کے نزدیک فرد اور ریاست کا تعلق بڑا مضبوط ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
علامہ اقبال نے ہمیشہ ایک ایسی ریاست کا خواب دیکھا جہاں ہر شہری کو مساویانہ حقوق حاصل ہیں اور ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خوشحالی کے لئے اِن مواقع سے فائدہ اٹھا ئے جوا سے ریاست عطا کرتی ہے۔ہر فرد کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ اپنی آزادی کے ثمرات سے مستفید ہو، اِسے مناسب مواقع ملیں جو دولت کی منصفانہ تقسیم سے ہی ممکن ہے۔ ایک ریاست میں تمام بچوں کی ذمہ داری ریاست پر ہوتی ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو رنگ و نسل، خاندان ، مذہب، لسانی تفرقوں اور سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر ترقی کے مواقع فراہم کرے۔
آزادی حاصل کرنے کے بعد گذشتہ 65سالہ تاریخ میں اس خواب کو تعبیر دینے کےلئے اگرچہ بہت سی کوششیں کی گئی ہیں لیکن علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر پانے کےلئے تمام تر پالیسیوں، اقدامات اور کوششوں کے باوجود ابھی ہماری منزل دور ہے۔
پاکستان کے محروم طبقات کی ترقی کےلئے جتنی بھی معاشی ترقی کی کوششیں اب تک کی گئی ہیں ان میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو ایک جداگانہ حیثیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر پانے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک فلاحی ریاست بنانے کےلئے بی آئی ایس پی پہلا راست اقدام ہے ،جو اب الحمدللہ !سماجی و معاشی تحفظ کا ایک جامع ترین پروگرام بن چکا ہے۔غریب خاندان کو مالی معاونت کی فراہمی کے ساتھ ساتھ وسیلہءحق کے بلاسود قرضے، اور وسیلہءروزگار کے تحت روزگار کےلئے ہنر اور ٹیکنکل تربیت کی فراہمی جیسے اقدامات سے انہیں غربت کی چکی سے نجات دلانا بھی ہمارا مقصد ہے۔بیماری اور ناگہانی آفات سے غریب خاندانوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ ایسے میں سماجی تحفظ کےلئے ہم نے تمام مستحق خاندانوں کےلئے ہیلتھ انشورنس اور لائف انشورنس کی سکیمیں متعارف کروائی ہیں۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جدید ٹیکنالوجی اور عالمی معیار کے طریقہءکار کی بدولت شفاف کارکردگی اب ہماری پہچان بن گئی ہے۔ یہی نہیں ملک کے اندر عوام ہم پر اعتماد اور بھروسے کا اظہار کررہے ہیں دوسری جانب عالمی سطح پر مالیاتی ادارے اور دوسرے ملکوں کی حکومتوں کی جانب سے بھی بی آئی ایس پیکی کارکردگی کو سراہا جارہا ہے۔
مجھے یہ کہنے میں فخر محسوس ہو رہا ہے کہ جو خواب شاعرِ مشرق نے 100 سال پہلے دیکھا اُس کی تعبیر پانے کےلئے بی آئی ایس پی نے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔
صرف 4 سال کے مختصر عرصے میں ہم نے دنیا پر ثابت کردیا ہے کہ محنت، لگن اور جذبے کی صداقت کامیابی کی ضمانت ہے۔علامہ اقبال کے فلسفہءخودی میں تعلیم کو از حد اہمیت حاصل ہے۔ اُن کے نزدیک تعلیم انسان کو دوسروں سے بے نیاز کر کے خود انحصاری پر مائل کرتی ہے۔ ڈاکٹر اقبال نوجوانوں کی تعلیم وتربیت اور ان کی شخصیت کی تعمیر پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
علم و فن را اے جوان شوخ و شنگ
مغزمی باید نہ ملبوس فرنگ
اندریں رہ جزنگہ مطلوب نیست
این کلہ یا آں کلہ مطلوب نیست
فکر چالا کے اگر داری بس است
طبع درّا کے اگر داری بس است
علامہ اقبال کے نزدیک انسانی شخصیت کی تعمیر میں تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور جب کوئی قوم تعلیم کی مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے تو عظیم ریاستیں وجود میں آتی ہیں۔
علامہ اقبال کی بصیرت اورخرد افروزی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہم آج اس موقع پر وسیلہءتعلیم کا افتتاح کررہے ہیں جو دراصل پرائمری تعلیم کےلئے رقم فراہم کرنے کے فرض کی ادائیگی ہے۔ ہمارے اس نئے اقدام کی بدولت غریب اور مستحق خاندانوں کو اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم کےلئے سکول بھیجنا ہے تاکہ یہ بچے پڑھ لکھ کر مستقبل میں خود اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوسکیں۔
مستحق خاندانوں کو اپنے بچے سکول بھیجنے کےلئے ماہانہ مالی معاونت کے علاوہ ماہانہ اضافی رقم دی جائے گی۔اس سکیم کے تحت ہر مستحق خاندان میں 3 بچوں کو 200 روپے فی بچہ ہرماہ سکول کی تعلیم کےلئے دئےے جائیں گے لیکن اس کےلئے شرط یہ ہے کہ بچہ سکول میں 70 فیصد حاضریاں دیتا رہا ہو۔
یہ پروگرام بلاشبہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جانب سے عظیم قوم کے نام ایک عظیم تحفہ ہے۔ اس پروگرام کے تحت غریبوں کے 30 لاکھ بچوں کو بغیر کچھ خرچ کئے معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ اس اہم کام کا بیڑا اقوام متحدہ کے ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے تحت اٹھایا گیا ہے۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کارکردگی نے ثابت کیا ہے کہ یہ پورے ملک میں تعلیم فراہم کرنے کےلئے بھی ایک مثالی پلیٹ فارم ہے کیونکہ ایک تو صرف بی آئی ایس پی نے چند برسوں میں ہی لاکھوں غریب لوگوں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ اور ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے بچوں کو سرے سے سکول بھیجتے ہی نہیں ہیں۔
دوسرے، ملک گیر غربت سکور کارڈ سروے کے ذریعے بی آئی ایس پی نے غریب اور مستحق خاندانوں کے قابل بھروسہ اعدادوشمار لئے ہیں جو مسائل کی تشخیص اور ان کے حل کےلئے از حد ضروری ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ چونکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام لاکھوں غریب خاندانوں کی مالی معاونت کررہا ہے اس لئے ان کی سماجی زندگی پر اثر اندازہوتے ہوئے امداد کی وصولی کو بچوں کی تعلیم سے مشروط کر کے انہیں پابند کیا جاسکتا ہے۔
میرا پختہ ایمان ہے کہ فکر اقبال کے تحت معاشرے کے تمام طبقات کو ترقی کے دھارے میں شامل کئے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ لاکھوں خاندانوں کو پسماندہ چھوڑ کر تصور اقبال کے تحت پاکستان کی قومی ترقی کا خواب کبھی شرمندئہ تعبیر نہیں ہوگا ۔وسیلہءتعلیم کوئی معمولی پروگرام نہیں ہے یہ مستقبل میں ایک نئے پاکستان کا ضامن ہے۔ معاشرے کے نچلے اور محروم طبقات میں تعلیم کو فروغ دے کر مجھے قومی امیدہے کہ انشاءاللہ ہم پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے جہاں امیر غریب میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جائے گا۔ جہاں سب بچوں کو خوراک اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق ملیں گے، جہاں ہر فرد کوروزگاراور صحت کی سہولیات میسر ہوں گی کیونکہ اب ہماری مشترکہ فلاح و بہبود اور خوشحالی کی منزل دور نہیںہے۔
آخر میں علامہ اقبال کا ایک قطعہ پیش خدمت ہے جس کو ہم سب کو بطور مشعلِ راہ اپنی زندگیوں میں شامل کر لینا چاہیے۔
ہزارخوف ہوں لیکن زباں ہو دِل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
علاجِ ضعفِ یقین ان سے ہو نہیں سکتا

ای پیپر دی نیشن