ملت اسلامیہ ازروئے امت و ملت دوسروں سے یکسر اور بالکل مختلف ہے، ہر ملت و امت میں قبائل اور شعوب پائے جاتے ہیں۔ قومیتیں پائی جاتی ہیں لیکن ملت اسلامیہ کی حیثیت ہمیشہ فوق الاقوام ہوتی ہے اور پھر اسی حوالے سے ملت اسلامیہ وطنوں، رنگوں، نسلوں اور زبانوں سے اعلیٰ ترین حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ اسی طرح پاکستانی قوم بھی اپنے وطن پاکستان کی وجہ سے پاکستانی کہلائی۔ اس کی برتر حیثیت ملت کہلائی اور ملت اسلام کی وجہ سے کہلائی، ملت کا مصدر اور اساس،اشتراکِ عقیدہ بن گیا۔ جب اشتراک عقیدہ مستحکم ہوا تو وطنی نسلی اور لسانی حیثیت ایک طرف رہ گئی۔ لہذا یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ مسلم ملت کی بنیاد اساس، مصدر، منبع، سرچشمہ دیگر اقوام سے مختلف ٹھہرا۔
سید نذیر نیازی نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے”اسلام قیدِ وطن سے آزاد ہے۔ اس کا مقصد ہے ایک ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل جو مختلف نسلوں اور قوموں کو باہم جمع کرتے ہوئے ایک ایسی امت تیار کرے جس کا اپنا ایک مخصوص شعورِ ذات ہو“۔(اقبال کے حضور، صفحہ نمبر15)
اسی ایک مخصوص شعورِ سات نے اسلامی نقطہ نظر سے ایک ایسا نظریہ عطا کیا، جس نے خون کی نفی کر دی، اگر باپ مسلمان ہے اور بیٹا کافر تو دونوں ایک دوسرے کے کچھ نہیں لگتے، چنانچہ ہمارے سامنے جنگِ بدر اور جنگِ احد کے واقعات کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ حضور اکرم ایک طرف تھے تو دوسری طرف ان کے چچا عباس بن عبدالمطلب، حضرت زینبؓ کے خاوند، حضور اکرم کے داماد بھی مخالف کیمپ میں تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ساتھ تھے اور ان کے فرزند عبدالرحمن مخالف کیمپ میں تھے۔ حضرت عمرؓ ایک طرف تھے اور ان کے سگے ماموں دوسری طرف تھے۔ حضرت علی حضور اکرم کے ساتھ تھے تو دوسری طرف ان کے چچا اور بھائی عقیل تھے، حضرت ابو حذیفہؓ حضور اکرم کے ساتھ تھے تو ان کے والد عتبہ بن ربیعہ مخالف کیمپ میں تھے۔ بہر حال حضرت صہیب رومی تھے، حضرت سلمان فارسی، ایرانی تھے۔ حضرت بلالؓ حبشی تھے، یہ سبھی قریش میں سے نہ تھے لیکن ایک امت مسلمہ کے افراد تھے۔ اس نظریے نے یہ ثابت کیا کہ ملت اسلامیہ ایک اصولی، روحانی، نظریاتی، دینی، اسلامی اور قرآنی اساس کی مالک ہے۔ جس میں حسب ونسب، رنگ و خون، مال و دولت، ثروت و حشمت کا کوئی دخل نہیں، یہی وہ نظریہ تھا جس نے برصغیر کے جغرافیائی زمان و مکان کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور تخلیق پاکستان کا نعرہ بن گیا، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ اسی کلمہ کی روح نے وہ جذبہ عمل تخلیق کیا جسے نظریہ¿ پاکستان کہتے ہیں۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں
ملت بیضا تن و جاں لا الہ
ساز مارا پردہ گرداں لا الہ
از یکِ آئینِ مسلماں زندہ است
پیکرِ ملتِ ز قرآن زندہ است
ایف کے درانی تحریر کرتے ہیں، سر عبدالرحیم نے کہا تھا۔ ”ہم ہندوستانی مسلمانوں میں سے کوئی افغانستان، ایران، سنٹرل ایشیا، چینی مسلمانوں، عربوں اور ترکوں کے یہاں سفر کر رہا ہو تو اس کی اجنبیت دور ہوتے ذرا دیر نہیں لگتی اور وہ یوں محسوس کرنے لگتا ہے گویا اپنے ہی گھر میں ہے، اسے کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کے ہم عادی نہ ہوں اور جو ہماری دیکھی بھالی نہ ہو مگر اس کے خلاف ہندوستان میں جب ہم اپنی گلی عبور کر کے اس حصے میں چلے جائیں جہاں ہمارے ہم شہر ہندو رہتے ہیں تو ہم تمام سماجی معاملات میں اپنے آپ کو ہندوﺅں سے بالکل دور اور اجنبی پاتے ہیں“۔
Meaning of Pakistan by: F.K.Durrani Published by Sh.Ashraf,Lahore, P-72)
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام سے بہت پہلے مسیحیت نے بنی نوع انسان کو پیغام مساوات دیا تھا مگر مسیحی روما اپنے اندر یہ اہلیت پیدا نہ کر سکا کہ ”بنی آدم اعضائے یک دیگراند“ کے تصور کا صحیح اور کامل ادراک کر سکتا “۔
(The Reconstruction of Religious Thoughts in Islam. P-141)
پروفیسر محمد منور مرزا تحریر کرتے ہیں
”آج کے اہل اسلام دیس دیس میں موجود ہیں مگر وہ جہاں بھی ہیں ان کا انداز، مزاج، رویہ، آداب، معاملات، معیار خیر و شر، وہاں کے غیر مسلم معاشروں سے ممیز ہیں۔ غیر مسلموں سے قرب مکانی ہے مگر ہم نے دیکھا ہے کہ یوگوسلاویہ کا مسلمان اہل پاکستان میں اس طرح رہتا ہے گویا اپنے ہی کنبے میں ہو حالانکہ خود یوگوسلاویہ میں وہیں مسیحیوں اور کمیونسٹوں میں اس کا دم گھٹتا ہے، علامہ اقبالؒ ہی کولے لیں، وہ برعظیم کے غیر مسلموں کیلئے اپنے عقیدے اور نظریے، مزاج اور رویے کے باعث اجنبی ہیں لیکن افغانیوں، ایرانیوں، ترکوں، مصریوں اور عربوں وغیرہ سے قریب ہیں۔ عبدالوہاب عزام مصر میں ہوں، محمد عاکف ترکی میں ہوں، ملک الشعراءبہار ایران میں ہوں تو حضرت علامہ اقبالؒ کے عزیز اور یگانے محسوس ہوں مگر ٹیگور اسی برعظیم میں ہونے کے باوصف دور ہوں۔ حق یہ ہے کہ ایک طرف فاصلے میلوں میں ناپے جاتے ہیں اور دوسری طرف روحانی سفر ہیں جہاں فاصلے ہوتے نہیں“۔ (ایقان اقبالؒ، مصنف پروفیسر محمد منور صفحہ 136)
اس پس منظر میں اگر نظریہ¿ پاکستان کا تاریخی دینی جغرافیائی، معاشرتی اور سماجی طور پر تجزیہ اور تقابل کیا جائے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ برصغیر میں مسلمان اور ہندو تقریباً 12 سو سال سے زیادہ ایک خطے میں آباد ہیں لیکن اکٹھے کبھی نہ رہے چنانچہ فیصلہ مشیت ایزدی کا یہ ہوا کہ اسلامیان ہند کےلئے ایک علیحدہ وطن ضروری ہے اور اس ضمن میں حضرت قائداعظمؒ اور حضرت علامہ اقبالؒ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اہم ترین ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔ بہر کیف نظریہ¿ پاکستان برصغیر میں ایک ایسی نظریاتی اور روحانی تحریک بن کر ابھرا جو دو قومی نظریے کی کوکھ سے وجود پذیر ہوا۔ مسلم الثبوت حقیقت ہے کہ ہر اسلامی ملک یا وطن میں ایسی تحاریک جاری رہیں، جنہوں نے اسلامی امت کو اپنے درخشندہ ماضی سے علیحدہ نہیں ہونے دیا۔ مایوسی و نامرادی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ ہمیشہ روشن اور تابندہ مستقبل کی نشاندہی کی۔ سوڈان میں مہدی سوڈانی، محمدیہ تحریک انڈونیشیا میں، سنوسی کی تحریک لیبیا میں ایران میں کاشانی کی تحریک قابل ذکر ہیں۔ شیخ عبدہ کی تحریک مصر میں، جمال الدین افغانی کی پان اسلام ازم کی تحریک، شام میں رشید رضا کی تحریک اور ہندوستان میں شاہ ولی اللہ کی تحریک اور حضرت علامہ اقبال کی اسلامی تبلیغ و تعلیم جاری رہی، جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسلامیان ہند کسی طور پر مایوسی اور دل شکستگی کا باعث نہ بنے اور انہوں نے ہندو کی دھرتی کے تصور کے تار پود بکھیر کر رکھ دیئے۔ڈبلیو سی سمتھ نے اس حوالے سے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ ”مسلمانوں نے یہاں اسلام کو کچھ اس طرح جزو جاں بنایا ہے کہ ان تک پہنچنے والا کوئی نظریہ بھی ایسا نہیں رہتا جیسا کہ باہر سے آیا تھا۔ مسلمانوں نے اسے اسلامی رنگ دے دیا۔ لبرلزم ان کے یہاں جا کے معین اسلامی مقاصد کا علمبردار بن جاتا ہے“۔
(Islam In Modern History By W.C. Smith P-75)
ہمارے بے شمار زعمائے کرام اور جید فلاسفروں نے اپنی اپنی تاویلات پیش کی ہیں کسی نے یہ کہا کہ نظریہ¿ پاکستان تو غریب، نادار، مزدور اور پسے ہوئے مسلمانوں نے تخلیق کیا۔ کسی نے علمی چودھراہٹ کی بنا پر کہا کہ پاکستان تو بنا ہی امرائے کرام کی عیاشیوں کیلئے تھا۔ بہر کیف بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آتی ہیں۔ لہذا نظریہ¿ پاکستان کے حوالے سے قطعاً کوئی تشکیک اور شبہ نہیں ہے کہ یہ صرف اور صرف اسلام کے بنیادی اصولوں اور قرآنی عقائد کی روشنی میں تعمیل و تشکیل کا نام ہے۔ جس کی وجہ سے ایک خاص تحریک، ایک مخصوص جذبہ، ایک مخصوص مقصدِ حیات معرضِ ظہور میں آیا، جو ہمیشہ سے مسلمانوں کے اندر موجود رہا، اور یہی ایک خاص نقطہ¿ نظر، نظریہ¿ پاکستان کے فلسفے کا باعث بنا.... جسے حضرت علامہ اقبالؒ نے اور حضرت قائداعظم نے اپنے اپنے خاص انگ و آہنگ میں اسلام کی روشنی میں متعین کیا۔ وہ لوگ جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستان غریبوں نے بنایا ہے اور تخلیق پاکستان غربت کی بنیاد پر ہوئی۔ ان سے گذارش ہے کہ کیوں نہ غریب ہندوﺅں نے تخلیق پاکستان کا کردار ادا کیا اور اگر امرائے کرام اور جاگیرداروں نے پاکستان کی تخلیق کیا تھا، تو برصغیر کے بڑے بڑے جاگیردار اور بڑے ٹاٹے کیوں نہ تخلیق پاکستان میں شامل ہوئے۔ ایسا نہیں ہے۔ معاشی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انگریز اور ہندو نے مل کر اسلامیان ہند کے معاشی ذرائع یکسر مسدود کر دیئے تھے لیکن حاوی عنصر وہی نظریہ¿ اسلام تھا۔ وہی تصور قرآن تھا، وہی اسلامی روایات و اقدار کا غلغلہ تھا، جس نے 10 کروڑ اسلامیانِ ہند کو حضرت قائداعظمؒ کی قیادت میں جسد واحد میں بدل کر رکھ دیا۔ ملت اسلامیہ اور نظریہ¿ پاکستان ایک علیحدہ کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔ اس باب میں بھرپور کاوش کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے عصر حاضر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایسے اہم موضوعات پر زیادہ سے زیادہ قلمی کاوشیں بروئے کار لائی جائیں۔ تاکہ ملت اسلامیہ میں ان دینی اور اسلامی جذبات و احساسات کو پروان چڑھایا جا سکے۔ جس کی موجودہ دور میں سخت ضرورت اور اہمیت ہے۔ عالم اسلام موجودہ وقت میں جس دوراہے پر کھڑا ہے، خاص طور پر پاکستان جن میں بین الاقوامی جکڑ بندیوں اور سازشوں کی آماجگاہ بن رہا ہے۔ ان موضوعات پر قلم آرائی کی اشد ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔