علامہ محمد اقبال شاعر مشرق ہی نہےں آپ ترجمان حقےقت بھی تھے صوفی شاعر خواجہ مےر درد نے اپنی تصنےف علم الکتاب مےں کہا تھا کہ کمال تک پہنچنے کےلئے شرےعت، طرےقت،معرفت اور حقےقت چاروں لازم ہےں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نزدےک مذہبی فکر وعمل کے ان دوسلسلوں کا ملاپ نا گرےز ہے اسی لئے علامہ اقبال نے دےن کے ظاہری اور باطنی علوم کو متضاد نہ سمجھا بلکہ انہےں اےک دوسرے کے مددگار کے طور پر پےش کےا ےہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال اپنے ہم عصر اور بعد مےں آنےوالے جملہ شعرائے کرام اور فلاسفر مےں اےک انتہائی اعلیٰ مقام پر فائز ہوئے علامہ اقبال کی عظمت کا راز انکی بے پاےاں بصےرت اور بے پناہ اجتہادی قوت مےں پنہاں ہے۔ اپنے دور کی حقےقتوں کو جا نچا اپنے پےش رو اور ہم عصر احباب فکر و دانش کے درس پےغام کا حکےمانہ نظر سے مطالعہ و تجزےہ کےا فقط اپنے گردوپےش ہی نہےں بلکہ کرہ ارض مےں ہونے والی ظاہری و باطنی تبدےلےوں کا عمےق مطالعہ کےا اپنے باطن کو پاک صاف کر کے گنبد خضریٰ کے نور سے معمور ہستےوں تک رسائی کی اور پھر اپنی حکےمانہ بصےرت کو شعر کے قالب مےں ڈھال کر امت رسول ﷺ کی صدےوں تک رہنمائی کا سامان مہےا فرماےا علامہ اقبالؒ نے اسلام کو دور حاضر کے اےسے ضابطہ حےات کے طور پر جانچا پرکھا اور پھر پےش کےا ہے جس مےں علمی ،فکری اور عملی اعتبار سے ہر زمانے مےں انسان کی ہداےت و رہنمائی کی صلاحےت اور توانائی موجود ہے دور جدےد مےں انسان کےلئے سب سے بڑی مشکل بے شمار آسائشوں سائنسی اےجادات خلا ءکی تسخےر سےٹلائےٹ ،کمپےوٹر اور انٹر نےٹ کے ذرےعے دنےا کو اےک عالمی گاﺅں مےں تبدےل کرنے کی خواہش کے ساتھ کمال تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرنے کے باوجود اپنے اور اپنے مستقبل کے بارے مےں بے ےقےنی ہے ....
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنےا مےں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پےچ مےں الجھا اےسا
آج تک فےصلہ نفع و ضر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کےا
زندگی کی شب تارےک سحر کر نہ سکا
اپنی ذات کی شناخت سے ےہ محرومی اوراپنے وجود پر بے ےقےنی کی ےہ کےفےت دور حاضر کے مسلمان کا بالخصوص اور عام انسان کا بالعموم سب سے بڑا المےہ ہے ےہ بے ےقےنی اس کےلئے اےک مہلک مرض بنتی جارہی ہے بات دراصل ےہ ہے کہ خالق کائنات کی ذات پر قلبی اےمان سے محروم انسان اس بنےاد سے محروم ہو جاتا ہے جس پر وہ اپنی ذات کے اثبات کی تعمےر کر سکتا ہے بقول اقبالؒ ....
شاخ نہال سدرہ، خار و خس چمن مشو
منکر او اگر شوی منکر خوےش مشو
تو اگر اللہ کی ذات کا انکار کرتا ہے تو اپنی ذات سے انکار نہ کر کہ تو درخت سدرہ کی اےک شاخ ہے خود کو چمن کے خس و خاشاک مےں شمار نہ کر اس لئے علامہ اقبال نے ےہاں تک کہہ دےا ہے کہ ....
منکر حق نزد ملا کافر است
منکر خود نزد من کافر تر است
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کو نہ ماننے والا ملا کے نزدےک اگر کافر ہے تو اپنی ہستی اور وجود کا منکر مےرے نزدےک اس سے بھی بڑا کافر ہے نگاہ اقبال مےں افکار کی محکمی اور پختگی کےلئے ان کا رشتہ دےن سے قائم کرنا لازم ہے عقل اور فکر کی آزادی ضروری ہے لےکن آزادی اور لاقانونےت مےں فرق ہے
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حےوان بنانے کا طرےقہ
تارےخ انسانی شاہد ہے کہ انقلابات کی بنےاد عقل نہےں اےمان و عقےدہ رہاہے اس عقےدہ کی کوئی بھی شکل ہو سکتی ہے حتیٰ کہ اشتراکی انقلاب بھی بات عقل ہی کی کرتا رہا لےکن ماورائے عقل کو جھٹلانہ سکا اور اسے اس نے فطرت کے لبادے مےں ملفوف کرکے دنےا سے چھپانے کی ناکام کوشش کی ےوں اس نے بالواسطہ وجود باری تعالیٰ کو مان لےا عقل حصول علم کی اےک بہت اہم قوت ضرور ہے لےکن واحد قوت نہےں ہے انسان کے وجود مےں عقل کےساتھ ساتھ جذبے کی قوت بھی موجود ہے جو دراصل اسے وہ قوت اےمانی عطا کرتی ہے جسے وہ عقل سے ملا کر تسخےر ذات و کائنات کےلئے استعمال کر سکتا ہے ےہی جذبہ اسے نیچے نہےں بےٹھنے دےتا اور وہ بےرونی کائنات کے ساتھ من کی کائنات کا متلاشی رہتا ہے اور بقول حضرت علیؓ جس نے اپنے نفس کو پہچان لےا اس نے خدا کو پہچان لےا علامہ اقبالؒ نے عشق کو اعلیٰ تعمےری جذبے کے طور پر پےش ہی نہےں کےا بلکہ وسےلہ علم کے طور پر بھی اسے عقل سے ہمےشہ ماورا رکھا ہے کےونکہ ےہی جذبہ فرےب سود و زےاں سے نکال کر انسان کو بے خطر جدوجہد پر آمادہ رکھتا ہے جبکہ عقل انسانی محدود دائروںمےںمقےدرہی ہے ....
بے خطر کود پڑا آتش نمرود مےں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عقل عےار ہے سو بھےس بدل دےتی ہے
عشق بے چارہ نہ اہد نہ ملا نہ حکےم
زمانہ عقل کو سمجھا رہا ہے راہ مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکےمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدےث رندانہ
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہےں
تےر ا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہےں
علامہ اقبال جس شعور اےمان کے حامل تھے انہوں نے چاہا کہ دوسروں مےں بھی شعوری سطح پر اےمان کی عظمت تسلےم کرنے کی وہی صفت بےدار ہو وہ ہر مومن سے تقاضا کرتے ہےں کہ اےمان اور عقل کو متضاد نہ سمجھا جائے بلکہ ان مےں مطابقت پےدا کی جائے تارےخ انسانی شاہد ہے کہ مادی اور روحانی کامےابی کےلئے متضاد صفتوں کی ضرورت نہےں ہوتی بلکہ روحانی صفتوں کو مادی زندگی پر لاگو کرکے بھی انسانی دنےا مےں ترقی پائی جا سکتی ہے محنت،اےمان داری، مستقل مزاجی، کفاےت شعاری، انصاف پسندی، معاملات مےں سچائی،حق پر ستی،اور انسان دوستی دنےا و عافےت سنوار سکتی ہےں بشرطےکہ دےنوی کامےابی کا تصور اس قدر ہےچ نہ ہو کہ اس کےلئے انسان کو ہر اچھی چےز اور شرافت کا ہر اصول قربان کرنا پڑے اگر اجتماعی ماحول اچھائی کا ہو تو فطری احکامات پر عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے اسی لئے اقبال کامےابی کے لئے فرد کی ملت سے وابستگی کو نا گرےز سمجھتے ہےں ....
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہےں
موج ہے درےا مےں اور بےرون درےا کچھ نہےں
اسی فکر پر عمل کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے مسلمانان ہند مےں فرد کی بجائے ملت سے وابستگی کے جذبے کو عملا اجاگر کےا اور ان کےلئے خطبہ الہ آباد کی صورت مےں واضح سمت متعےن کر دی جس پر چلتے ہوئے قائد اعظم کی قےادت مےں مسلمانوں نے اپنے لئے دنےا کی سب سے بڑی مسلم مملکت قائم کی علامہ اقبالؒ ےوم آزادی پاکستان دےکھنے کےلئے ظاہرا حےات نہ تھے لےکن انکی فکر اس دن اور آج بھی ہماری رہنمائی کےلئے موجود ہے ےہ سب اس لئے ممکن ہوا کہ علامہ اقبالؒ نے اےمان کی اساس کو مضبوطی سے تھامے رکھا افرنگ کی چمک بھی انہےں متاثر نہ کر سکی آج بھی مسلمان اگر جدےد سائنس اور ٹےکنالوجی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے اےمان کی اساس پر مضبوطی سے قائم رہےں تو کوئی سبب نہےں کہ انہےں وہی عظمت رفتہ نصےب نہ ہو جس کےلئے علامہ اقبالؒ قادری مسلمانوں کو بےدار کرنا چاہتے تھے ےہی اےمان کل بھی ہمارا محافظ تھا اور آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے بقو ل علامہ اقبالؒ....
ولاےت، پادشاہی، علم، اشےاءکی جہانگےری
ےہ سب کےا ہےں ؟فقط اےک نقطہ اےماں کی تفسےرےں