فےض احمد 13 فروری 1911ءکو قصبہ کالا قادر ضلع سےالکوٹ مےں چودھری سلطان محمد خاں کے گھر پےدا ہوئے۔ پانچ چھ سال کی عمر مےں قرآن مجےد حفظ کرنا شروع کےا۔ تےن سپارے حفظ کر چکے تھے کہ آنکھےں دکھنے آگئےں۔ پھر حفظ نہ کر سکے۔ اس کا انہےں ہمےشہ دکھ رہا۔ وہ بچپن ہی سے بہت خاموش مزاج اور حلےم الطبع تھے۔ صاف ستھرے رہنے کا بہت شوق تھا۔ 1933ءمےں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگرےزی مےں اےم اے اور اگلے برس اورینٹل کالج لاہور سے اےم اے عربی کےا۔ انہوں نے پہلے مولوی مےر حسن کے مکتب اور اسکے بعد مّرے کالج سےالکوٹ مےں عربی پڑھی تھی۔ 1935ءمےں فےض احمد فےض اےم اے او کالج امرتسر مےں لےکچرار ہو گئے۔ قرة العےن حےدر لکھتی ہےں ےہاں ان کی ملاقات صاحبزادہ محمودالظفر اور ان کی بےوی رشےدہ آپا سے ہوئی۔ رشےدہ نے فےض صاحب کو کمےونسٹ مےنی فےسٹو پڑھنے کو دےا جس کو پڑھ کر موصوف پر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ گےان حاصل ہونے کے بعد فےض صاحب نے اپنی مشہور نظم لکھی: مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ 1940ءمےں وہ پنجاب ےونےورسٹی کے ہےلی کالج آف کامرس مےں انگرےزی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1941ءمےں انہوں نے اےک انگرےز خاتون اےلس جارج سے شادی کی۔ شادی سری نگر مےں ہوئی اور شےخ عبداللہ نے نکاح پڑھاےا۔
فےض گورے چٹے اور کشادہ جبےن تھے۔ قد گوارا‘ صاف ستھرا لباس‘ نرم دلنشےں گفتگو‘ کم سخن‘ کم آمےز‘ فےض کی بہن بی بی گل کہتی ہےں۔ فےض کو افغانی کھانے بہت پسند تھے شب دےگ‘ قورمہ پلاو¿ وغےرہ۔ مگر خود کبھی فرمائش نہےں کی جو مل گےا وہ کھا لےا۔فےض دمہ کے مرض مےں مبتلا تھے۔ 18 نومبر کی رات انہےں مےو ہسپتال مےں داخل کےا گےا۔ 20 نومبر 1984ءکو وہ انتقال کر گئے خلےق انجم کہتے ہےں۔17 نومبر کی صبح کو وہ بہت مدت کے بعد کالا قادر اور اپنی والدہ کے گاو¿ں گئے کسی نے لکھا ہے کہ اس دن انہوں نے اپنے گاو¿ں کی مسجد مےں نماز بھی پڑھائی۔
فےض کی وجہ شہرت صرف اور صرف شاعری نہےں ہے وہ اےک کثےرالجہات شخصےت تھے۔ وہ اےک دھےمے مزاج کے صحافی تھے جنہےں انگرےزی اور اُردو دونوں زبانوں پر ےکساں عبور تھا۔ دوسری جنگ عظےم مےں جب جرمنی نے روس پر حملہ کردےا تو کمےونسٹ اور ترقی پسند حضرات کو بھی موقع مل گےا کہ وہ جمہورےت کی بقا اور فاشزم کےخلاف جنگ کےلئے فوج مےں بھرتی ہو جائےں۔ چنانچہ تاثےر، فےض وغےرہ سب فوج مےں چلے گئے فےض نے 1942 مےں درس وتدرےس کو خےرباد کہا اور فوجی خدمات سرانجام دےنے لگے فےض لےفٹےنٹ کرنل کے عہدے پر فائز رہے۔فےض کراچی جاتے تو ہمےشہ مجےد ملک کے ہاں ٹھہرتے۔ اےک بار مجےد ملک پوچھنے لگے فےض اب تمہاری عمر کےا ہے، کہ وہ پچپن سال کے ہو چکے ہےں مجےد ملک بولے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اقبال نے اس عمر تک کچھ کر لےا تھا۔ اسکے مجےد ملک نے اقبال کی جملہ تصنےفات نظم ونثر کے نام گنوا دےے اور تان اس پر توڑی کہ فےض کی اب تک وہی دو ہی کتابےں شائع ہوئی ہےں نقش فرےادی اور دست صبا‘ فےض نے بڑے انکسار کے لہجے مےں جواب دےا مجےد بھائی اب آپ مےرا موازنہ اقبال سے تو نہ کےجئے ان کا تخلےقی جوہر تو اےک شعلہ جوالہ تھا اور مےرا اےک ننھی سی شمع کی لو۔
1964ءمےں لندن مےں عبادت برےلوی سے اےک انٹروےو مےں فےض احمد فےض نے بتاےا۔ علامہ اقبال سے کئی مرتبہ شرف نےاز حاصل ہوا۔ اےک تو وہ مےرے ہم وطن تھے۔ دوسرے مےرے والد کے دوست بھی تھے۔ دونوں ہم عصر تھے۔ اور انگلستان مےں بھی وہ اےک ساتھ رہے تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تو مجھے ےاد ہے بہت بچپن مےں ہوئی تھی جبکہ مےری عمر کوئی چھ سات برس کی ہو گی مجھے اچھی طرح ےاد ہے کہ سےالکوٹ مےں اےک انجمن اسلامےہ تھی اس کا ہر سال جلسہ ہوا کرتا تھا۔ اسلامےہ سکول بھی تھا دو تےن اور سکول بھی تھے وہاں پرکبھی کبھی علامہ اقبال ان کے سالانہ جلسوں مےں شرکت کے لئے آےا کرتے تھے پہلی دفعہ تو مےں نے انہےں انجمن اسلامےہ کے جلسے مےں دےکھا مجھ کو اس جلسے مےں شرکت کا موقع اس لئے دےا گےا تھا کہ مےں سکول مےں پڑھتا تھا اسلامےہ سکول مےں قرا¿ت سنائی تھی مجھے ےاد ہے کہ کسی نے اٹھا کر مجھے مےز پر کھڑا کر دےا تھا۔پنڈی سازش کےس مےں انکے جےل کے ساتھی ظفراللہ پوشنی لکھتے ہےں: انتقال سے اےک سال پہلے انہوں نے سگرےٹ اور شراب دونوں سے کنارہ کشی کر لی تھی‘ ان مےں غرور نام کو نہ تھا۔ غالب‘ اقبال‘ مےر وہ لوگ شاعر تھے ہم کےا ہےں‘ ےہ فقرے رواےتی کسر نفسی کے طور پر نہیں بلکہ نہایت سنجیدگی اور خلوص سے کہتے تھے۔ فیض کہتے تھے کہ اقبال کو پڑھتے وقت کوئی اور شاعر نظر میں نہیں جچتا۔ فکر اور شعر دونوں مےں ہمہ گےراور آفاقی۔
فےض نے اقبال کی عظمت کا ہمےشہ اعتراف کےا اور انہےں اس دور کا سب سے بڑا شاعر کہا۔ اےک بار فےض سے پوچھا گےا کہ آپکے خےال مےں علامہ اقبال کا شاعری مےں کےا مرتبہ ہے؟ بولے: جہاں تک شاعری مےں sensibility زبان پر عبور اور عناےت کا تعلق ہے ہم تو ان کی خاک پا بھی نہےں۔ علامہ بہت بڑے شاعر ہےں اگر وہ سوشلزم کے معاملے مےں ذرا سنجےدہ ہو جاتے تو ہمارا کہےں ٹھکانہ نہ ہوتا۔ فےض نے ترقی پسندوں کی اس وقت شدےد مخالفت کی جب وہ اقبال کےخلاف مضامےن لکھنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ وہ بتاتے ہےں کہ 1949ءمےں انجمن ترقی پسند مصنفےن کی طرف سے حکم ہوا کہ علامہ اقبال کو demolish کرےں.... ہمےں ےہ بک بک لگی کہ علامہ اقبال کے ہاں بے پناہ ذخےرہ سامراج جاگےرداروں اور نوابوں کےخلاف ملتا ہے.... چنانچہ ہماری ان سے جنگ ہو گئی۔
احمد ندےم قاسمی کہتے ہےں کہ فےض احمد بہت شےرےں مےٹھا اور رومانٹک شاعر تھا۔ حسن اور محبت کا شاعر تھا محبت اور حسن کے جذبات وہ جس خوبصورتی سے اپنی نظم ےا غزل مےں لے آتا ہے اس کا جواب نہےں لےکن مےں اسے غالب ےا اقبال کی صف مےں کھڑا نہےں کر سکتا۔ وہ اتنا عظےم شاعر نہےں جس طرح انہےں عظےم بنا کر پےش کےا جا رہا ہے کےونکہ شاعروں مےں جو فکر اور گہرائی ہوتی ہے وہ اسے جان بوجھ کر اپنے کلام مےں نہےں لائے۔ اس کی وجہ شاےد ےہ ہے کہ اور اقبال کے دور مےں تھے اور سمجھتے تھے کہ جس سطح پر اقبال پہنچا ہے کہ مےں وہاں کس طرح پہنچوں گا۔
قرة العےن لکھتی ہےں: (10) فےض صاحب کی ذہنی پختگی اس چےز سے ظاہر ہوتی ہے کہ جن دنوں سارے کٹر ترقی پسند حضرات اقبال کو فسطائی کہہ کر پکارتے تھے‘ فےض صاحب اس انتہا پسندی کے مخالف تھے اور اس زمانے مےں انہوں نے اقبال ہی کے لئے اپنی مندرجہ ذےل خوبصورت نظم لکھی تھی۔
آےا ہمارے دےس مےں اک خوش نوا فقےر
آےا اور اپنی دھن مےں غزل خواں گزرگےا
سنسان راہےں خلق سے آباد ہو گئےں
وےران مے کدوں کا نصےبہ سنور گےا
تھےں چند ہی نگاہےں جو اس تک پہنچ سکےں
پر اس کا گےت سب کے دلوں مےں اتر گےا
اب دور جا چکا ہے وہ شاہ گدا نما
اور پھر سے اپنے دےس کی راہےں اداس ہےں
چند اک کو ےاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
دو اک نگاہےں چند عزےزوں کے پاس ہےں
پر اس کا گےت سب کے دلوں مےں مقےم ہے
اور اس کی لے سے سےنکڑوں لذت شناس ہےں
آپ نے دےکھا کہ فکری تفاوت کے باوجود‘ فےض احمد فےض کے دل مےں علامہ اقبال کی عظمت کا شدےد احساس تھا۔
علامہ اقبال ؒ اور فیض احمد فیض
فےض احمد 13 فروری 1911ءکو قصبہ کالا قادر ضلع سےالکوٹ مےں چودھری سلطان محمد خاں کے گھر پےدا ہوئے۔ پانچ چھ سال کی عمر مےں قرآن مجےد حفظ کرنا شروع کےا۔ تےن سپارے حفظ کر چکے تھے کہ آنکھےں دکھنے آگئےں۔ پھر حفظ نہ کر سکے۔ اس کا انہےں ہمےشہ دکھ رہا۔ وہ بچپن ہی سے بہت خاموش مزاج اور حلےم الطبع تھے۔ صاف ستھرے رہنے کا بہت شوق تھا۔ 1933ءمےں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگرےزی مےں اےم اے اور اگلے برس اورینٹل کالج لاہور سے اےم اے عربی کےا۔ انہوں نے پہلے مولوی مےر حسن کے مکتب اور اسکے بعد مّرے کالج سےالکوٹ مےں عربی پڑھی تھی۔ 1935ءمےں فےض احمد فےض اےم اے او کالج امرتسر مےں لےکچرار ہو گئے۔ قرة العےن حےدر لکھتی ہےں ےہاں ان کی ملاقات صاحبزادہ محمودالظفر اور ان کی بےوی رشےدہ آپا سے ہوئی۔ رشےدہ نے فےض صاحب کو کمےونسٹ مےنی فےسٹو پڑھنے کو دےا جس کو پڑھ کر موصوف پر چودہ طبق روشن ہو گئے۔ گےان حاصل ہونے کے بعد فےض صاحب نے اپنی مشہور نظم لکھی: مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ۔ 1940ءمےں وہ پنجاب ےونےورسٹی کے ہےلی کالج آف کامرس مےں انگرےزی کے استاد مقرر ہوئے۔ 1941ءمےں انہوں نے اےک انگرےز خاتون اےلس جارج سے شادی کی۔ شادی سری نگر مےں ہوئی اور شےخ عبداللہ نے نکاح پڑھاےا۔
فےض گورے چٹے اور کشادہ جبےن تھے۔ قد گوارا‘ صاف ستھرا لباس‘ نرم دلنشےں گفتگو‘ کم سخن‘ کم آمےز‘ فےض کی بہن بی بی گل کہتی ہےں۔ فےض کو افغانی کھانے بہت پسند تھے شب دےگ‘ قورمہ پلاو¿ وغےرہ۔ مگر خود کبھی فرمائش نہےں کی جو مل گےا وہ کھا لےا۔فےض دمہ کے مرض مےں مبتلا تھے۔ 18 نومبر کی رات انہےں مےو ہسپتال مےں داخل کےا گےا۔ 20 نومبر 1984ءکو وہ انتقال کر گئے خلےق انجم کہتے ہےں۔17 نومبر کی صبح کو وہ بہت مدت کے بعد کالا قادر اور اپنی والدہ کے گاو¿ں گئے کسی نے لکھا ہے کہ اس دن انہوں نے اپنے گاو¿ں کی مسجد مےں نماز بھی پڑھائی۔
فےض کی وجہ شہرت صرف اور صرف شاعری نہےں ہے وہ اےک کثےرالجہات شخصےت تھے۔ وہ اےک دھےمے مزاج کے صحافی تھے جنہےں انگرےزی اور اُردو دونوں زبانوں پر ےکساں عبور تھا۔ دوسری جنگ عظےم مےں جب جرمنی نے روس پر حملہ کردےا تو کمےونسٹ اور ترقی پسند حضرات کو بھی موقع مل گےا کہ وہ جمہورےت کی بقا اور فاشزم کےخلاف جنگ کےلئے فوج مےں بھرتی ہو جائےں۔ چنانچہ تاثےر، فےض وغےرہ سب فوج مےں چلے گئے فےض نے 1942 مےں درس وتدرےس کو خےرباد کہا اور فوجی خدمات سرانجام دےنے لگے فےض لےفٹےنٹ کرنل کے عہدے پر فائز رہے۔فےض کراچی جاتے تو ہمےشہ مجےد ملک کے ہاں ٹھہرتے۔ اےک بار مجےد ملک پوچھنے لگے فےض اب تمہاری عمر کےا ہے، کہ وہ پچپن سال کے ہو چکے ہےں مجےد ملک بولے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اقبال نے اس عمر تک کچھ کر لےا تھا۔ اسکے مجےد ملک نے اقبال کی جملہ تصنےفات نظم ونثر کے نام گنوا دےے اور تان اس پر توڑی کہ فےض کی اب تک وہی دو ہی کتابےں شائع ہوئی ہےں نقش فرےادی اور دست صبا‘ فےض نے بڑے انکسار کے لہجے مےں جواب دےا مجےد بھائی اب آپ مےرا موازنہ اقبال سے تو نہ کےجئے ان کا تخلےقی جوہر تو اےک شعلہ جوالہ تھا اور مےرا اےک ننھی سی شمع کی لو۔
1964ءمےں لندن مےں عبادت برےلوی سے اےک انٹروےو مےں فےض احمد فےض نے بتاےا۔ علامہ اقبال سے کئی مرتبہ شرف نےاز حاصل ہوا۔ اےک تو وہ مےرے ہم وطن تھے۔ دوسرے مےرے والد کے دوست بھی تھے۔ دونوں ہم عصر تھے۔ اور انگلستان مےں بھی وہ اےک ساتھ رہے تھے۔ ان سے پہلی ملاقات تو مجھے ےاد ہے بہت بچپن مےں ہوئی تھی جبکہ مےری عمر کوئی چھ سات برس کی ہو گی مجھے اچھی طرح ےاد ہے کہ سےالکوٹ مےں اےک انجمن اسلامےہ تھی اس کا ہر سال جلسہ ہوا کرتا تھا۔ اسلامےہ سکول بھی تھا دو تےن اور سکول بھی تھے وہاں پرکبھی کبھی علامہ اقبال ان کے سالانہ جلسوں مےں شرکت کے لئے آےا کرتے تھے پہلی دفعہ تو مےں نے انہےں انجمن اسلامےہ کے جلسے مےں دےکھا مجھ کو اس جلسے مےں شرکت کا موقع اس لئے دےا گےا تھا کہ مےں سکول مےں پڑھتا تھا اسلامےہ سکول مےں قرا¿ت سنائی تھی مجھے ےاد ہے کہ کسی نے اٹھا کر مجھے مےز پر کھڑا کر دےا تھا۔پنڈی سازش کےس مےں انکے جےل کے ساتھی ظفراللہ پوشنی لکھتے ہےں: انتقال سے اےک سال پہلے انہوں نے سگرےٹ اور شراب دونوں سے کنارہ کشی کر لی تھی‘ ان مےں غرور نام کو نہ تھا۔ غالب‘ اقبال‘ مےر وہ لوگ شاعر تھے ہم کےا ہےں‘ ےہ فقرے رواےتی کسر نفسی کے طور پر نہیں بلکہ نہایت سنجیدگی اور خلوص سے کہتے تھے۔ فیض کہتے تھے کہ اقبال کو پڑھتے وقت کوئی اور شاعر نظر میں نہیں جچتا۔ فکر اور شعر دونوں مےں ہمہ گےراور آفاقی۔
فےض نے اقبال کی عظمت کا ہمےشہ اعتراف کےا اور انہےں اس دور کا سب سے بڑا شاعر کہا۔ اےک بار فےض سے پوچھا گےا کہ آپکے خےال مےں علامہ اقبال کا شاعری مےں کےا مرتبہ ہے؟ بولے: جہاں تک شاعری مےں sensibility زبان پر عبور اور عناےت کا تعلق ہے ہم تو ان کی خاک پا بھی نہےں۔ علامہ بہت بڑے شاعر ہےں اگر وہ سوشلزم کے معاملے مےں ذرا سنجےدہ ہو جاتے تو ہمارا کہےں ٹھکانہ نہ ہوتا۔ فےض نے ترقی پسندوں کی اس وقت شدےد مخالفت کی جب وہ اقبال کےخلاف مضامےن لکھنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ وہ بتاتے ہےں کہ 1949ءمےں انجمن ترقی پسند مصنفےن کی طرف سے حکم ہوا کہ علامہ اقبال کو demolish کرےں.... ہمےں ےہ بک بک لگی کہ علامہ اقبال کے ہاں بے پناہ ذخےرہ سامراج جاگےرداروں اور نوابوں کےخلاف ملتا ہے.... چنانچہ ہماری ان سے جنگ ہو گئی۔
احمد ندےم قاسمی کہتے ہےں کہ فےض احمد بہت شےرےں مےٹھا اور رومانٹک شاعر تھا۔ حسن اور محبت کا شاعر تھا محبت اور حسن کے جذبات وہ جس خوبصورتی سے اپنی نظم ےا غزل مےں لے آتا ہے اس کا جواب نہےں لےکن مےں اسے غالب ےا اقبال کی صف مےں کھڑا نہےں کر سکتا۔ وہ اتنا عظےم شاعر نہےں جس طرح انہےں عظےم بنا کر پےش کےا جا رہا ہے کےونکہ شاعروں مےں جو فکر اور گہرائی ہوتی ہے وہ اسے جان بوجھ کر اپنے کلام مےں نہےں لائے۔ اس کی وجہ شاےد ےہ ہے کہ اور اقبال کے دور مےں تھے اور سمجھتے تھے کہ جس سطح پر اقبال پہنچا ہے کہ مےں وہاں کس طرح پہنچوں گا۔
قرة العےن لکھتی ہےں: (10) فےض صاحب کی ذہنی پختگی اس چےز سے ظاہر ہوتی ہے کہ جن دنوں سارے کٹر ترقی پسند حضرات اقبال کو فسطائی کہہ کر پکارتے تھے‘ فےض صاحب اس انتہا پسندی کے مخالف تھے اور اس زمانے مےں انہوں نے اقبال ہی کے لئے اپنی مندرجہ ذےل خوبصورت نظم لکھی تھی۔
آےا ہمارے دےس مےں اک خوش نوا فقےر
آےا اور اپنی دھن مےں غزل خواں گزرگےا
سنسان راہےں خلق سے آباد ہو گئےں
وےران مے کدوں کا نصےبہ سنور گےا
تھےں چند ہی نگاہےں جو اس تک پہنچ سکےں
پر اس کا گےت سب کے دلوں مےں اتر گےا
اب دور جا چکا ہے وہ شاہ گدا نما
اور پھر سے اپنے دےس کی راہےں اداس ہےں
چند اک کو ےاد ہے کوئی اس کی ادائے خاص
دو اک نگاہےں چند عزےزوں کے پاس ہےں
پر اس کا گےت سب کے دلوں مےں مقےم ہے
اور اس کی لے سے سےنکڑوں لذت شناس ہےں
آپ نے دےکھا کہ فکری تفاوت کے باوجود‘ فےض احمد فےض کے دل مےں علامہ اقبال کی عظمت کا شدےد احساس تھا۔