اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + ایجنسیاں) وفاقی حکومت نے بلوچستان امن و امان کیس کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کی درخواست دائر کر دی ہے۔ درخواست میں م¶قف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت نے سیاسی معاملات میں مداخلت کر کے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بحالی کے بعد خود یہ ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا۔ ملک حالت جنگ میں ہے توقع ہے عدالت اختیارات تقسیم کے اصول مدنظر رکھے گی۔ سپریم کورٹ اس کیس کے اثرات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ سپریم کورٹ نے برائیوں کی نشاندہی تو کر دی مگر کوئی حل تجویز نہیں کیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ نامکمل ہے۔ سیاسی حکومتوں کی کارکردگی جانچنا اور حکومت چلانا سپریم کورٹ کا کام نہیں۔ بلوچستان کے سردار اور وڈیرے اپنے علاقے میں چھوٹی سی بھی ترقی نہیں ہونے دیتے۔ سپریم کورٹ کو سرداروں کے اس رویئے کا مکمل طور پر ادراک ہے۔ تبدیلی وقت کے ساتھ آئیگی، صرف حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ بلوچستان امن و امان کیس کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔ درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اس کیس کے اثرات سے پوری طرح آگاہ ہے۔ یہ جہاز کا کپتان ہی جانتا ہے کہ اصل معاملات کیا ہیں۔ جہاز کے عملے یا اس کے ساتھیوں کو اصل صورتحال کا علم نہیں ہوتا۔ 58(2)B متنازعہ قانون تھا جو ختم کر دیا گیا۔ لگتا ہے فیصلہ اس کی روشنی میں کیا گیا۔ سوال یہ نہیں حکومت کیا کر رہی ہے، سوال یہ ہے کہ حکومت کیا نہیں کر رہی۔ ثناءنیوز کے مطابق وفاقی حکومت نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلہ 58(2)بی کا اختیار استعمال کرنے کے مترادف ہے جسے 18ویں ترمیم میں ختم کر دیا گیا ہے، یہ عدالت کا اختیار نہیں ہے کہ وہ بلوچستان حکومت کے خلاف فیصلہ کرے۔ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 112 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان حکومت کے خلاف فیصلہ دیا ۔ آرٹیکل 112 کے تحت صوبائی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ گورنر بلوچستان کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دے یا گورنر راج نافذ کرنے کی درخواست کرے۔ عدالت کو سیاسی سوالات میں الجھنے کا اختیار نہیں ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت بھی عدالت اس کیس کو نہیں سن سکتی ہے اور نہ ہی عدالت سیاسی سوالات کو سلجھانے کی کوشش کر سکتی ہے، عدالتی فیصلہ آئین کی خلاف ورزی ہے حکومت نے م¶قف اختیار کیا ہے کہ عدالتی فیصلہ سیاسی سوال طے کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کے آرٹیکل پانچ کے تحت کسی سیاسی سوال کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ یہ فیصلہ عدالتی اختیار سے باہر ہے۔ اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے، عدالتوں سے توقع ہے کہ ان معاملات کو سمجھتے ہوئے اپنے اختیارات کو مدنظر رکھ کر فیصلے کریں گی۔ درخواست میں م¶قف اختیار کیا گیا ہے کہ بلو چستان کے کچھ ادارے صوبہ میں نرمی اور امن نہیں چاہتے عدالت ان چیزوں سے واقف ہے۔ عدالتی فیصلہ کے علاوہ بھی 21 ایسے حقوق ہیں جنہیں فیصلہ میں مدنظر نہیں رکھا گیا۔ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اس طرح کی منظر کشی کرنا خطرناک صورتحال پیدا کرے گا۔ وفاقی حکومت صورتحال سے مکمل طور پر باخبر ہے۔ یہ ملک دشمن عناصر کی حوصلہ افزائی کرے گی۔ درخواست میں م¶قف اختیار کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ 18ویں ترمیم کے تحت 58ٹوبی کو ختم کر چکی ہے۔ لگتا ہے کہ فیصلہ اس قانون کی روشنی میں کیا گیا۔ عدالت کے پاس صوبائی معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ عدالت نے آرٹیکل 112 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان حکومت کے خلاف فیصلہ دیا۔ بلوچستان حکومت کو اختیار ہے کہ وہ گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا مشورہ دے۔ عدالت نے آرٹیکل 232 کی بھی خلاف ورزی کی جو ایمرجنسی لگانے کی بات کرتا ہے۔ آرٹیکل 232 صدر کو حالات کنٹرول میں نہ ہونے پر ایمرجنسی کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ بلوچستان بدامنی کیس کے حوالے سے فیصلے پر نظرثانی کی جائے۔
نظرثانی اپیل