بلاشبہ اس وقت بھی دنیا بھر کے شعراءاور دانشوروں میں سے اقبالؒ کا قد بہت بلند ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شیکسپیئر کو برطانوی حکومت، گوئٹے کو جرمنی حکومت اور اس طرح بہت سے شعراءاور دانشور ہیں جنہیں ان کی حکومتوں نے مقبول بنایا لیکن علامہ محمد اقبالؒ کا کمال ہے کہ وہ زندگی میں بھی عالمی شہرت کے مالک تھے اور عصرِ حاضر کے بارے میں تو ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
عصرِ حاضر خاصہ اقبالؒ گشت
1930ءمیں مسلم لیگ کے جلسہ الٰہ آباد میں جب علامہ اقبالؒ نے دو قومی نظریہ پیش کیا تو اس پر بہت تنقید ہوئی لیکن علامہ اقبالؒ کا ایک ہی پیغام تھا:
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیسرے دور کا آغاز ہے، چنانچہ جب لندن میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے گئے تو اس وقت تک وہ مغرب میں بھی شہرت حاصل کرچکے تھے، جب اٹلی کے سفیر نے ان کے بارے میں سنا تو روم میسولینی کو پیغام دیا کہ مشرق کا ایک عظیم دانشور لندن میں ہے اگر ملاقات کریں توکوئی نیا آئیڈیا ملے گا۔ میسولینی بہت خوش ہوا اور اطالوی سفیر نے علامہ اقبالؒ کو میسولینی سے ملاقات کیلئے روم کے سفر پر بھیج دیا۔اس وقت اٹلی کی فاشسٹ پارٹی یورپ پر گہرے نقوش ثبت کر رہی تھی۔ میسولینی نے پہلے تو علامہ اقبالؒ سے مختلف موضوعات پر بات چیت کی۔ آخر میں کہنے لگا کہ مجھے کوئی آئیڈیا دیں۔ علامہ اقبالؒ نے کہا کہ جب روم کی آبادی اس کے وسائل سے بڑھ جائے تو مزید لوگوں کو روم میں آباد ہونے کی اجازت نہ دی جائے بلکہ ان کیلئے نئی بستیاں آباد کی جائیں۔ میسولینی نے حیران ہو کر پوچھا کہ اس میں کیا حکمت ہے؟ تو علامہ اقبالؒ نے کہا کہ اگر آبادی وسائل سے زیادہ ہوگی تو مثبت کلچر پر منفی کلچر غالب آجائے گا اور مسائل بڑھتے جائیں گے۔ یہ سن کر میسولینی جوش سے اُٹھ کھڑا ہوا اور بولا کہ یہ تو بہت اچھوتا اور تعمیری آئیڈیا ہے، آپ نے کہاں سے لیا؟ علامہ اقبالؒ نے کہا کہ
”یہ میرا آئیڈیا نہیں ہے بلکہ میرے پیغمبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کا آئیڈیا ہے۔ آپ ﷺنے کہا تھا کہ جب مدینہ کی آبادی اس کے وسائل سے بڑھ جائے تو پھر مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت نہ دی جائے بلکہ نئی بستیاں آباد کی جائیں۔“
علامہ اقبالؒ کے صرف اس ایک آئیڈیا کی روشنی میں کراچی شہر کو دیکھیں تو اس کے تمام مسائل کی جڑ یہی ایک نکتہ ہے کہ وہاں کی آبادی وسائل سے زیادہ ہے، جس کی وجہ سے منفی کلچر غالب آچکا ہے۔ لاہور کے مسائل میں بھی صرف اسی وجہ سے آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے کہ آبادی اور وسائل کا تناسب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور وہ شہر ہے، جس میں پیدا ہونے والی گندم پورے برصغیر میں مشہور تھی اور یہاں کی زمین زرخیز ترین تھی لیکن بدقسمتی سے اتنی زرخیز زمین پر فصلوں کی جگہ کالونیوں کی شکل میں سیمنٹ اور ریت کی دیواریں اُگا دی گئی ہیں۔
پاکستان میں بہت سے معاشی مسائل آئے لیکن پاکستانیوں کو ان مسائل کی شدت کا صرف اس وجہ سے احساس نہ ہوا کہ ہمیں ہماری زمین وافر خوراک سستے داموں مہیا کر دیتی ہے۔ یہ تو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی غلط حکمت عملی تھی کہ بغیر سوچے سمجھے، پارلیمنٹ میں بحث کرائے بغیر گندم کی قیمت ڈبل کرکے غریب کے منہ سے آدھی روٹی چھین لی۔
اس کا سبب علامہ اقبالؒ یہ بیان کرتے ہیں کہ دانش نورانی کی جگہ دانش بریانی پر بھروسہ کیا گیا۔
اِک دانش نورانی، اِک دانش بریانی
ہے دانش بریانی، حیرت کی فراوانی
ہماری پسماندگی کا دوسرا بڑا سبب علامہ اقبالؒ کے نزدیک
اغیار کے افکار تخیل کی گدائی
کیا مجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
اغیار یا مغرب کے آئیڈیاز ان کی تہذیب و ثقافت کے مطابق تو ہوسکتے ہیں ،ہماری راہنمائی وہ کیسے کرسکتے ہیں؟ کیونکہ ہم تو اس اُمت سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں ایسے پیغمبر ﷺآئے جو معجزے لے کر آئے۔ اسی لئے علامہ اقبالؒ کہتے ہیں کہ
بے معجزہ دنیا میں اُبھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
اقبالؒ کا ترقی کرنے کیلئے صرف ایک ہی پیغام ہے کہ
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے بے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
اس لئے پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے نئے آئیڈیاز پر کام کریں۔