اقبال ۔ قائداعظم کے رہنما

Nov 09, 2013

محمد یوسف عرفان

شاعر مشرق علامہ اقبال دنیا کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے مظلوم اور محکوم ملت کو حریت، قیادت اور ریاست عطا کی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے یوم اقبال منعقدہ 1944ءکی دوسری نشست کی صدارت کی اور کہا کہ ”کار لائل نے شیکسپیئر کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے ایک انگریز کا ذکر کیا اسے جب شیکسپیئر اور دولت برطانیہ میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کا اختیار دیا گیا تو اس نے کہا میں شیکسپیئر کو کسی قیمت پر نہ دوں گا“ یہ بیان کر کے قائداعظم نے ارشاد کیا ”گو میرے پاس سلطنت نہیں، لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کروں گا۔“
قائداعظم نے 26 دسمبر 1938ءکو آل پاکستان مسلم لیگ کے اجلاس بمقام پٹنہ میں کہا تھا کہ ”علامہ اقبال میرے ذاتی دوست تھے اور ان کا شمار دنیا کے عظیم شعراءمیں ہوتا ہے وہ اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اسلام زندہ رہے گا۔ ان کی عظیم شاعری ہندوستانی مسلمانوں کی خواہشات کی صحیح عکاسی کرتی ہے ان کی شاعری ہمارے لئے اور ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ کا کام دے گی۔“
قائداعظم نے علامہ اقبال کی وفات پر تعزیتی پیغام میں کہا کہ ”وہ میرے رہنما، دوست اور فیلسوف تھے نیز قائداعظم نے 2 مارچ 1941ءکے یوم اقبال پر کہا کہ ”مجھے فخر ہے کہ مجھے ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار، رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔“
اسلام نے شاعری کی دو اقسام بیان کی ہیں جن کی تفصیل پیغمبر اسلام محمد مصطفی نے امراءالقیس اور حضرت حسانؓ بن ثابت کے اسماءسے منسوب کی ہے۔ امراءالقیس کی شاعری شراب، شباب، لب و رخسار، حیم و جنس جیسے موضوعات پر ہے جبکہ حضرت حسانؓ کی شاعری نورِ ایمان کی شاعری ہے جو حکمتِ الٰہی کی گواہی ہے۔ قومی و ملی شاعری بھی الٰہی پالیسی کی عکاس ہوتی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری اللہ تعالیٰ کی بہترین اُمت کے ماضی، حال اور مستقبل کی داستاں ہے جو محمد مصطفی کی سیرت کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ فی الحقیقت حکیم الامت کی شاعری ایک طویل نعت ہے جو قرآن و سُنت کی نمائندہ ہے۔
ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کی شخصیت اور شاعری کی کئی جہات ہیں ان کے موضوعات انسان اور انسان سے وابستہ ہر پہلو ہے۔ ان کی شاعری سیاسی، سماجی معاشی، اخلاقی اصلاحی، انسانی روحانی، دینی، قومی ملی، علمی ادبی وغیرہ ہیں۔ استاد گرامی پروفیسر محمد منور ”کلام اقبال کو روح قرآن“ قرار دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کا شعر ہے کہ
مقام خویش اگر خواہی در ایں دیر
بحق دل بند و راہِ مصطفیٰ رو
اگر تم چاہتے ہو کہ اس کون و مکاں میں اپنا مرتبہ اور مقام پالو، جس کے حصول کی قابلیت تم میں ودیعت شدہ ہے، تو معاملہ سادہ سا ہے کہ دل اللہ کے ساتھ وابستہ رکھو اور راہِ مصطفی اختیار کرو۔
ہمارے قومی شاعر انسان اور دنیا کو نورِ الٰہی سے دیکھتے ہیں۔ نورِ الٰہی ایک طویل منظر اور سفر ہے جو زمان و مکاں کا قیدی نہیں۔ علامہ اقبال کی شاعری کے دو اہم پہلو تہذیب مغرب کا زوال اور احیائے اسلام ہے۔ علامہ اقبال نے 1907ءمیں زوالِ مغرب کا سبب اخلاقی، روحانی اور انسانی اقدار سے دوری اور ملحدانہ دہریت قرار دیا ہے جس کیلئے مغربی پالیسی کی بنیاد تاجرانہ قرار دی ہے :
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
علامہ اقبال نے احیائے اسلام کے حوالے سے فرمایا کہ :
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سُنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے، وہ شہر پھر ہوشیار ہو گا
علامہ اقبال غالباً پہلے مفکر اور شاعر ہیں جنہوں نے زوال مغرب کے اسباب اور اثرات بیان کئے ہیں بعد ازاں یہی انحطاطی نظریات ویسٹ لینڈ اور سقوطِ مغرب اور دو عالمی جنگوں سے قبل، درمیان اور مابعد کی شاعری سے عیاں ہیں۔
 اس وقت زوال مغرب کا حال یہ ہے کہ تہذیبوں کے تعاون کے بجائے تصادم پر کتب لکھی جا رہی ہیں جس کی بنیاد پر تیسری عالمی جنگ جاری ہے اور اس جنگ کے جعلی اور غیر حقیقی اسباب کیلئے عراق، افغانستان، بوسنیا، لبنان، فلسطین، مصر، سوڈان، لیبیا، شام وغیرہ سے جنگ شروع کر رکھی ہے نیز پاکستان اور سعودی عرب کو شدید دباﺅ میں رکھا ہوا ہے۔
 شاعر اسلام علامہ اقبال نے احیائے اسلام کے حوالے سے فرمایا کہ پاک افغان خطہ (افپاک) احیائے اسلام کا مرکز ہو گا اور یہاں کے محکموم مسلمان عالمی حکمران بنیں گے اور یہ محکوم مسلمان تیسری عالمی جنگ میں اللہ و رسول اور قرآن و سُنت کے نفاذ کیلئے اسی طرح جان کا نذرانہ پیش کریں گے کہ عزوہ¿ بدر و حنین کے شہداءاور مجاہدین کی یاد تازہ ہو جائے گی۔
یہ مشتاقاں حدیثِ خواجہ بدر و حنین آور
تصرف ہائے پنہانش بچشم آ شکار آمد

مزیدخبریں