اقبال نے مرد مومن کا تصور کہاں سے اخذ کیا؟اس حوالے سے مختلف آرا ءملتی ہیں ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی اساس خالصتاً اسلامی تعلیمات پر ہے اور اس سلسلہ میں اقبال نے ابن مشکویہ اور عبدالکریم الجیلی جیسے اسلامی مفکرین سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ایک گروہ اس تصور کو مغربی فلسفی نیٹشے کے فوق البشر کا عکس بتاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے خیال قدیم یونانی فلاسفرز سے حاصل کیا ہے۔ اور کچھ اسے مولانا روم کی دین قرار دیتے ہیں۔ اس لئے ان تمام مختلف اور متضاد آراءکے پیش نظر ضروری ہے کہ مرد مومن کے متعلق بات کرنے سے قبل ان افکار کا جائزہ لیا جائے جو مشرق اور مغرب میں اقبال سے قبل اس سلسلہ میں موجود تھے۔ ....”ابن م±شکویہ“
”انسان کامل یا مرد مومن کی زندگی، جو آئین الہٰی کے مطابق ہوتی ہے ، فطرت کی عام زندگی میں شریک ہوتی ہے اور اشیاءکی حقیقت کا راز اس کی ذات پر منکشف ہو جاتاہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان کامل غرض کی حدود سے نکل کر جوہر کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ ، اس کا کلام خدا کا کلام اور اس کی زندگی خدا کی زندگی بن جاتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسانیت اور الہٰیت ایک ہو جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ انسانِ ربانی کی پیدائش ہے۔“ ”عبدالکریم الجیلی“
نیٹشے مشہور جرمن فلسفی ہے جس نے اپنی کئی کتابوں میں فوق البشر انسان کے تصور کو پیش کیا ہے۔ نیٹشے اوائل عمری میں خدا کا منکر تھا۔ بعد میں اسے ایسے انسان کی تلاش کی لگن ہوگئی جو سپر مین ، فوق البشر یا مرد برتر کہلا سکے۔اس بارے میں وہ کہتا ہے۔” فوق البشر وہ اعلی فرد ہوگا جو طبقہ اشرافیہ سے ظہور کرے گا اور جو معمولی انسانوں کے درمیان میں خطرات کو جھیلتے ہوئے ابھرے گا اور سب پر چھا جائے گا۔
نیٹشے نسلی برتری کا زبردست حامی ہے اور مخصوص نسل کو محفوظ رکھنے اور خصوصی تربیت و برداخت پر خاص زور دیتاہے۔ فوق البشر کیلئے مروجہ اخلاقیات کو وہ زہر سمجھتا ہے۔ اور اس اسے غلامانہ اخلاق سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اور ا±سے خیر و شر کے معیار سے ماورا خیال کرتا ہے۔ اور اسکے مقاصد کے پیش نظر ہر قسم کی جنگ کو جائز قرار دیتا ہے۔ بقول پروفیسر عزیز احمد ”نیٹشے کے فوق البشر کی تین خصوصیات ہیں۔ قوت فراست اور تکبر“
اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اسکی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اسکے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔
اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر انکی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔
جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی
مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
گویا کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اسکی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اسکی تخلیق دوسروں کیلئے شمع ہدایت بنتی ہے۔
بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان، ”اپنے نفس میں فطرت کی تمام قوتوں کو مرتکز کرنے سے مرد مومن میں تسخیر عناصر کی غیر معمولی صلاحیتیں پیداہو جاتی ہیں جن کے باعث وہ اپنے آپ کو نےابت الہٰی کا اہل ثابت کرتا ہے اور اسکی نظر افراد کے افکار میں زلزلہ ڈال دیتی ہے۔ اور اقوام کی تقدیر میں انقلاب پیدا کر دیتی ہے۔
نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہےں تقدیریں
بندہ مومن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کیلئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے ؟ اعلیٰ ترین نصب العین کیلئے سچی لگن ، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزﺅں کو پورا کرنے کیلئے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اسکے رسول کیساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اسکے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔