یوم اقبال پر حضرت علامہ اقبالؒ کے مزار اقدس پر حاضری کا شرف حاصل کرنے اور اس دن کی مناسبت سے تحریر و تقریر کی تقریبات منعقد کرنے کی تیاری کے ارادوں کے ساتھ ہی میری کیفیت نہ جانے کیوں ایک مجرم کی سی ہونے لگی۔ ایک انجانے، جانے احساس ندامت و شرمساری نے مجھ کو جکڑ لیا۔ خود کو ایسے محسوس کرنے لگا جیسے کوئی مقروض طویل جھوٹے وعدوں کے بعد پھر قارض کے پاس خالی ہاتھ جا رہا ہے۔ جیسے کسی امانت میں خیانت کے بعد امین کی حالت ہو۔ کسی بہت بڑے محسن کی وفا کا بدلہ جفا سے دیا ہو یا وہاں حاضر ہوتے ہی احتساب سے گزرنا ہو۔ انہی تصورات میں کھوئے پھر یوں لگا جیسے اقبال مجھ سے مخاطب ہوئے بہت ناراضگی اور رنجیدگی سے مجھے ڈانٹ دیتے ہیں اور جیسے کہہ رہے ہوں کہ اپنے گریبان میں جھانکو میری فکر کی دھجیاں کیسے بکھیر رہے ہیں۔
میری شاعری میرے پیغام کو اپنی تقریروں اور تحریروں کو موثر بنانے کے لئے استعمال میں لا کر دانشوری بگھارتے ہو، میری پیدائش اور وفات کے ایام میں خوبصورت رنگین ایڈیشن میری عقیدت و محبت بھرے خالی خولی کالم و مضامین تقاریب اور پروگرامز سے مبرا حق حق ادا نہیں ہو جاتا۔ میں نے عمل سے زندگی بننے اور گفتار کے غازی بننے سے منع کر کے کردار کے غازی بننے کا درس دیا ہے۔
تم نے تو میری قوم کے بچوں کو بھی نہیں بخشا، ان کی صبحوں اور تعلیمی عمل کا آغاز میرے کلام کی دعاﺅں سے شروع کر کے سارا دن اداروں میں میری سوچ و فکر کے متضاد تعلیم جس سے نونہالان قوم سے جذبہ خودی، جذبہ عشق مصطفی اور روح محمد ان کے بدل سے نکالی جائے۔
میں نے آگاہ کیا تھا کہ قوم رسول ہاشمی اپنی ترکیب میں خاص ہے لیکن تم اسے اقوام مغرب سے قیاس کرنے سے باز نہ آئے۔ کیا یہی وہ وطن ہے جس کی پیشن گوئی ٹھنڈی ہواﺅں کی آمد سے پیارے آقاﷺ نے کی۔ اس لاالٰہ کے خطہ میں بھی کتنی دیدہ دلیری سے استعمال کے ایجنٹ یہود و نصاریٰ کاسہ لیس نام نہاد روشن خیالی اور آزادی رائے کی آڑ میں نظریہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہیں۔ وہ میرے اور قائداعظم کے نظریات کو مسخ کرنے کی جرات کیونکر کر سکتے اگر تم رسول عربی کے غلام ہوتے۔ اسی نام نہاد آزادی اظہار اور بے لگام میڈیا کے بارے میں ہی تو میں نے کہا تھا ....
ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
افسوس تم اس نام نہاد جدت پسندی و ترقی کی میری فکر کی روشنی میں پرکھتے میں نے اسی خدشہ کا اظہار کیا تھا۔
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازہ¿ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
اور اب تمہیں ثریا سے زمیں پر گردوں نے دے مارا ہے
مثال ماہ چمکتا تھا جس کا داغ سجود
خرید لی ہے فرنگی نے وہ مسلمانی
فن کلچر و تفریح کے ڈھونگ رچا کر طاﺅس و رباب کو شمشیر و سناں پر فوقیت دینے والے، کشکولی، آزاد ملک غلام شہریو! تمہاری انہی کمزوریوں، ناچاقیوں، نااتفاقیوں نے تمہیں بدامنی، دہشت گردی وغیرہ کے ماحول دے رکھے ہیں۔ ڈرون حملوں بم دھماکوں نے بھی تمہیں بیدار نہ کیا۔
اب بھی ہوش میں آﺅ، سوچو، سمجھو، قوت عشق ہر پست کو بالا اور اسم محمد سے دہر میں اجالا پھیلاﺅ، خودی، یقین تدبر سے کام لو، تم زندہ قوم ہو۔ اپنے اسلاف کی زندہ روایات کے امیں ہو۔ میں نے اسی لئے کہا تھا کہ فکر سے محروم قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ میں نے قول رسول نقل کیا تھا کہ جس میں آپ نے ارشاد فرمایا.... فکر کا ایک لمحہ ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔