قائداعظم کس کے کہنے پر پاکستان آئے؟

قائداعظم کس کے کہنے پر پاکستان آئے؟

نعیم احمد
شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کے مطابق جن دنوں وہ حیدرآباد دکن میں حدیث نبوی پر کام کر رہے تھے تو متعدد بار قائداعظم نے ان سے پیغامات اور خط و کتابت کے ذریعے ملنے کی کوشش کی لیکن وہ قائداعظم کو مغربی تعلیم یافتہ تصور کرتے ہوئے نظرانداز کرتے رہے۔ نہ تو پیغام اور خطوط کا جواب بھیجا اور نہ ہی ان کی ملاقات کی خواہش کا کوئی خاطر خواہ جواب دیا۔ایک رات حضور اکرم شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کو خواب میں شرف ملاقات بخشتے ہیں اور حکم دیتے ہیں کہ: ”ہمارا ایک امتی آپ سے ملنا اور رہنمائی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ آپ بمبئی جائیں اور ان سے ملاقات کریں “
 مولانا شبیر احمد عثمانی سب کچھ چھوڑ کر اپنی پہلی فرصت میں بمبئی پہنچتے ہیں اور جب قائداعظم کے دردولت پر پہنچتے اور ملازم کو اپنی آمد اور قائداعظمؒ سے ملاقات کی خبر دیتے ہیں۔ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی اندر تشریف لاتے ہیں تو قائداعظم کو ”سراپا انتظار“ دیکھتے ہیں اور پھر دونوں عاشقان رسول کے درمیان مندرجہ ذیل ”مکالمہ“ ہوتا ہے۔
قائداعظم ”حضور والا! میں مسلسل آپ کو پیغامات اور خطوط ارسال کرتا رہا اور آپ سے ملاقات اور رہنمائی کا متمنی رہا تو آپ نے توجہ نہیں فرمائی لیکن جب ”آپ“ (حضور اکرم) کا حکم ہوا ہے تو تشریف لائے ہیں“شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ”کیا آپ کو بھی حضور سرور دوعالم کی ”بشارت“ ہوئی ہے؟“قائداعظم ”میں تو آپ کے ارشاد کے مطابق ہی، آپ سے ملاقات کے لئے کوشش کرتا رہا ہوں“
علامہ شبیر احمد عثمانی ”کیا یہ سچ ہے؟“
قائداعظم ”یہ حقیقت ہے۔“
اس مکالمے کے بعد دونوں ”عاشقان رسول“ ملاقات کرتے ہیں۔ مختلف امور زیر بحث آتے ہیں لیکن سب سے اہم مسئلہ ”سفید بنیا“ اور ”سیاہ بنیا“ سے آزادی حاصل کرنا اور مملکت خداداد پاکستان کا قیام تھا۔ چنانچہ تفصیلی ملاقات اور تبادلہ خیالات کے بعد شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے قائداعظم کو ہرممکن تعاون اور رہنمائی کا یقین دلایا۔ قائداعظمؒ اور حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کے مذکورہ بالا بیانات سے اس مملکت خداداد کا روحانی پہلو اظہر من الشمس ہو جاتا ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک میں برصغیر کی تمام مشہور و معروف روحانی درگاہوں سے وابستہ مشائخ عظام نے قائداعظمؒ کی پکار پر لبیک کہا تھا اور اپنے مریدین اور عقیدت مندوں کو حکم صادر فرمایا تھا کہ وہ حصول پاکستان کے لئے اپنا تن من دھن نثار کر دیں۔
1969ءمیں پراجیکٹ ہائی سکول منگلا میں قائداعظم ڈے پر سکول کی بزم ادب نے منگلا ڈیم آرگنائزیشن کے پی آر او جناب سید محمد ادریس شاہ (متوفی 1995ئ) کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا تھا۔ آپ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ قائداعظمؒ کے ایک نہایت قریبی ساتھی تھے جنہوں نے ایک مجلس میں جہاں میں بھی موجود تھا، یہ واقعہ سنایا تھا:
” جب قائداعظم انگلستان سے مستقل طور پر ممبئی (بھارت) آ گئے تو میں آپ سے ملاقات کے لئے گیا۔ قائداعظم گہری سوچ میں غرق تھے۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ علامہ اقبالؒ نے مجھے بلایا، جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ لیاقت علی خان مجھے لے کر آئے۔ بے شک ان دونوں حضرات کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے، لیکن اصل بات جو مجھے یہاں لائی کچھ اور ہی ہے جو میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائی تمہیں اس شرط پر بتانا چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں اسے ظاہر نہیں کرو گے کیونکہ لوگ بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ جب میں نے انہیں یقین دلایا کہ ایسا ہی ہو گا تو انہوں نے فرمایا:
ایک رات میں لندن میں اپنے کمرے میں سو رہا تھا کہ ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں پھر سو گیا۔ دوسرا جھٹکا تیز تھا۔ پس میں اٹھا اور دروازہ کھول کر باہر کا جائزہ لیا اور یہ اطمینان کرکے کہ سب ٹھیک ہے، آ کر سو گیا۔ تیسرے جھٹکے نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ میں اٹھ کر بستر پر بیٹھ گیا۔ میرا کمرہ خوشبو سے مہک رہا تھا اور میں کسی کی موجودگی محسوس کر رہا تھا میں نے کہا:
who are you?
جواب آیا:
I am your Prophet Muhammad (pbuh)
I have come to ordain you to leave for india & guide Muslims there in their Freedom Movement. I am with you. Finally you will emerge successful insha-allah
یہ سن کر میں نے جواب دیا
Thank you my Holy Prophet (pbuh)
اس واقعہ کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو سکتا تھا میں مستقل طور پر بمبئی آ گیا۔
مصنف/ مولف کتاب ہذا نے اس واقعہ سے یہ تین نتائج اخذ کئے ہیں:
-1 قائداعظم محمد علی جناح قدس سرہ کی بلند بختی کی انتہا ہے، یہ خواب نہیں ہے بلکہ آپ بیداری میں حضرت رسول اللہ کے ارشاد عالیہ کی سماعت فرما رہے ہیں اور عین ممکن ہے دیدار بھی کر رہے ہوں (بات بہت پرانی ہو چکی ہے، کوشش بسیار کے باوجود قائداعظمؒ کے ان دوست کا نام معلوم نہ ہو سکا)
-2 ہندو اور انگریز کی بے پناہ رکاوٹوں اور مخالفت کے باوصف قائداعظمؒ کو اپنے مشن میں کامیابی کا سوفیصد یقین تھا کیونکہ امام الانبیائ آپ کو کامیابی کی نوید سنا چکے تھے۔ ایسا ہی ہوا۔ تمام رکاوٹیں دھری کی دھری رہ گئیں اور بظاہر ناممکن حالات کے باوجود پاکستان وجود میں آ گیا۔
-3 ڈائیلاگ اور گفتگو انگریزی میں ہوئی تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ حضور نبی آخر الزمان قیامت تک کے لئے نبی ہیں۔ آپ کے امتی ہزارہا قسم کی زبانیں بولتے ہیں۔ یہ بھی آپ کا زندہ معجزہ ہے کہ آپ کا جو امتی آپ سے جس زبان میں گفتگو کرتا ہے آپ اسی کی زبان میں اس کو جواب مرحمت فرماتے ہیں۔ (سیرت النبی بعد از وصال النبی، جلد سات کا واقعہ نمبر 312)
مولایَ صل وسلم دائماً ابداً
آخر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں
(زیارت نبی بحالتِ بیداری مصنف محمد عبدالمجید صدیقی ایڈووکیٹ مطبوعہ فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور)

ای پیپر دی نیشن