علامہ محمد اقبال کو بجا طور پر مفکر پاکستان کہا جاتا ہے۔ کیونکہ ان ہی کے سیاسی افکار تحریک پاکستان کی بنیاد ہیں۔ اپریل 1943ءمیں جب ”اقبال کے خطوط، جناح کے نام“ کے عنوان سے لاہور کے ایک مشہور پبلشرز نے انگریزی میں کتاب شائع کی تو اس کی دیباچہ خود قائداعظم نے تحریر کیا۔ اس کتاب سے حاصل ہونے والی تمام رائلٹی مسلم لیگ کے تحریک پاکستان فنڈ میں جمع کروائی گئی۔ قائداعظم نے تحریر فرمایا کہ ”ڈاکٹر محمد اقبال کے خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ بالخصوص وہ خطوط جن میں مسلم انڈیا کے سیاسی مستقبل کے بارے میں ان کے خیالات کا واضح اور غیر مہم اظہار ہے۔ اقبال کے خیالات پورے طور پر میرے (قائداعظم) خیالات سے ہم آہنگ تھے اور بالاآخر یہی خیالات ہندوستان کے مسلمانوں کی اس اجتماعی خواہش کی صورت میں جلوہ گر ہوئے جس کا اظہار مسلم لیگ کی 23 مارچ 1940ءکی منظور کردہ قرارداد کی صورت میں ہوا۔ یہی قرارداد اب قرارداد پاکستان کے نام سے موسوم ہے۔“علامہ محمد اقبال نے نہ صرف ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے ایک جداگانہ ریاست کا واضح تصور پیش کیا بلکہ مسلمانوں کی اس الگ ریاست کے لئے قائد کی نشاندہی بھی کی اور فرمایا کہ صرف محمد علی جناح ہی اس موقع پر قوم کی صحیح راہنمائی کر سکتے ہیںکہ ہندوستان میں مسٹر جناح کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی خوبی عطا کی ہے جو اور کسی مسلمان میں مجھے (اقبال) نظر نہیں آتی۔ جب علامہ اقبال سے سوال کیا گیا کہ محمد علی جناح کی وہ خوبی کون سی ہے تو ان کا جواب تھا کہ ” جناح نہ تو بدعنوان ہے اورنہ ہی انہیں خریدا جا سکتا ہے“۔ علامہ اقبال کی یہ شدید خواہش تھی کہ مسلم لیگ صرف بالائی متوسط طبقے کی سیاسی سرگرمیوں تک محدود ایک جماعت نہ ہو بلکہ یہ عام مسلمان عوام کے لئے مقبول اور ہردلعزیز جماعت بن جائے۔ اس مقصد کے لئے علامہ اقبال نے قائداعظم کو یہ تجویز دی کہ مسلم لیگ کو تمام مسلمانوں کی حالت بہتر بنانے او ان کی عمومی فلاح و بہبود کے لئے کوئی واضح پروگرام دینا چاہئے۔ علامہ اقبال نے زور دے کر یہ بھی کہا کہ اگر مسلم لیگ نے عام مسلمانوں کی غربت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے کوئی واضح لائحہ عمل نہ دیا تو مسلم عوام کا ایک بہت بڑا حصہ مسلم لیگ کی سیاست سے پہلے کی طرح لا تعلق رہے گا۔قائداعظم اپریل 1936ءمیں لاہور کے دورے پر تشریف لائے تو انہوں نے بطور خاص علامہ اقبال سے بھی ملاقات کی۔ ان دنوں علامہ اقبال سخت علیل تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے قائداعظم سے ہر طرح کے تعاون کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی کہ ان کے پاس کروڑ پتی سیٹھ قسم کے افراد نہیں وہ صرف عوام کی مدد کا وعدہ کر سکتے ہیں۔ قائداعظم نے علامہ اقبال کی اس بات پر بہت خوش ہوئے اور جواباً کہا کہ مجھے بھی صرف عوام کا تعاون درکار ہے۔جیسا کہ اوپر کی سطور میں بیان کیا گیا کہ علامہ اقبال کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی درپیش سیاسی مسائل کے حل کے لئے مسلمانوں کی جداگانہ ریاست کی تجویز دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسلمانوں کی اقتصادی زندگی کی درست کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا تھا۔ 28 مئی 1937ءکو انہوں نے قائداعظم کے نام انتہائی اہم خط لکھا تھا جس میں ان کا فرمانا تھا کہ ”اسلامی قانون کے طویل اور گہرے مطالعہ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر اس نظام قانون کو اچھی طرح سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو ہر شخص کے لئے کم از کم حق معاش محفوظ ہو جاتا ہے۔ لیکن شریعت اسلام کا نفاذ اور ارتقاءایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر اس ملک میں نا ممکن ہے۔“علامہ اقبال نے کتنے خوبصورت اور مختصر الفاظ میں پاکستان کے تصور کی تشریح کردی ہے کہ مسلمانوں کی غربت کے مسائل کا حل اسلام شریعت کے نفاذ میں ہے اور اسلامی شریعت ایک آزاد مسلمان ریاست ہی میں نافذ کی جاسکتی ہے۔ جب شروع 1938ءمیں مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ” قومیتیں اوطان سے بنتی ہیں۔ مذہب سے نہیں“ تو علامہ اقبال نے اشعار کی صورت میں اس کا بڑا مدلل جواب دیا تھا۔ علامہ اقبال کا ارشاد تھا کہ دین خدا کی طرف سے ملتا ہے لیکن امت کی تشکیل اس رسول کی نسبت سے ہوتی ہے جو اس دین کو لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ اس بنیاد پر اسلام کے پیروکار امت محمدیہ کہلاتے ہیں۔ اگر قومیت کی بنیاد وطن قرار پائے تو رسول کریم سے ہماری نسبت ختم ہو جاتی ہے اور رسول پاک سے نسبت ختم ہو جائے تو اسلام سے ہمارا رشتہ ختم ہو جاتا ہے بلکہ اسلام ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی لئے علامہ اقبال نے فرمایا کہ....
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
علامہ اقبال کے اس شعر کی تشریح قائداعظم نے اپنی اس تقریر میں کردی تھی جو انہوں نے مارچ 1940ءمیں لاہور مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں فرمائی تھی جسے ہم تحریک پاکستان کی تاریخ کا نشان منزل کہہ سکتے ہیں۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ ”اسلام اور ہندومت دو مذہب نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مختلف معاشرتی نظام ہیں اور اس وجہ سے متحدہ قومیت کا تخیل ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ ہندو اور مسلمان مذہب کے ہر معاملہ میں دو جداگانہ فلسفے رکھتے ہیں۔ دونوں کی معاشرت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ دونوں الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کی بنیادیں متضاد تصورات پر ہیں دو ایسی قوموں کو ایک نظام مملکت میں یکجا کرنا باہمی انتشار کو بڑھائے گا اور بالآخر اس نظام کو پاش پاش کردے گا۔ قائداعظم نے قیام پاکستان کے تحریک کو مسلمان قوم کی زندگی اور موت کے معرکہ کا نام دیا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ہم کسی مادی مفادات کے لئے جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ ہماری جدوجہد اس لئے ہیں کہ مسلمان قوم کی روح زندہ اور برقرار رہے۔آخر میں مجھے صرف یہ گزارش کرنی ہے کہ ہمیں قیام پاکستان کے مقاصد کو جاننے اور یہ سمجھنے کے لئے کہ پاکستان کیوں بنا علامہ اقبال کا کلام اور قائداعظم کے اشادات کا مطالعہ کرتے رہنا چاہئے۔ مسلمانوں کا دین محض ایک عقیدہ یا چند عبادات کا نام نہیں بلکہ ہمارا دین ایک مکمل نظام حیات پیش کرتا ہے۔
ہماری ایک امتیازی تہذیب اور تمدن ہے اور زندگی گزارنے کے متعلق ہمارا کی منفرد نظریہ اور نصب العین ہے۔ علامہ اقبال اگر اسلامی تعلیمات سے مکمل طور پر آگاہ نہ ہوتے اور رسول کریم کے سچے اور وفادار پیروکار نہ ہوتے تو وہ کبھی مسلمانوں کے لئے ایک الگ قومی وطن کا مطالبہ نہ کرتے اور قائداعظم اگر اپنی خداداد قائدانہ صلاحیتیوں سے تحریک پاکستان کو ایک بھر پور عوامی تحریک میں تبدیل نہ کرسکتے تو قیام پاکستان کا معرکہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ان عظیم محسنوں اقبال اور قائداعظم کو اپنے حبیب پاک پیغمبر اعظم و آخر کے صدقے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔