اقبال اور جناح کا پاکستان سنوارنا اور مضبوط کرنا ضروری ہے

Nov 09, 2014

ڈاکٹر انور سدید

اقبال نے کہا ’’مغرب کی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب کا ترقی یافتہ عکس ہے‘‘ برصغیر ہند کی تاریخ میں اقبال کا ظہور ایک ایسے نقطے پر ہوا جب انگریزوں کی حکومتی بالادستی مکمل ہو چکی تھی اور غلامی کی گراں باری نے اہل ہند کے لئے مستقل کیفیت اختیار کر لی تھی ۔ قوم نے ذہنی پابندیٔ سلاسل کو نہ صرف قبول کر لیا تھا بلکہ اسے ہی آئین حیات بندی سمجھ کر اس میں طمانیت بھی محسوس کرنا شروع کر دی تھی۔ اقبال کے آباو اجداد اگرچہ کشمیری برہمن تھے لیکن قبول اسلام کے بعد ان کے مزاج میں اسلامی تہذیب، قرآنی تعلیمات اور نبی اکرمؐ کا اسوۂ حسنہ بنیادی عناصر کے طور پر رس بس گیا تھا۔ یہ عناصر خالصتاً مذہبی بھی تھے اور جمالیاتی بھی اور ان کے مایہ خمیر میں تصوف بھی شامل تھا اور مقصد وجدانی عمل سے حقیقت اولیٰ تک پہنچنا تھا جو انسان کی اور پوری کائنات کی خالق تھی اور نظام عالم کو اس طرح چلا رہی تھی کہ مغرب کا خردمند انسان حیرت زدہ تھا لیکن مغرب اپنی دانش کے زعم میں مشرق کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تو اقبال فکر مند ہو جاتے کہ کہیں مادہ پرستی کی یلغار مشرق کے انسان کو مادی دنیا کے ادنیٰ مقاصد کا اسیر اس کو روحانی روشنی سے محروم ہی نہ کر دے۔ چنانچہ انہوں نے روحانی دنیا کو مادی دنیا پر ہمیشہ فوقیت دی ، مغربی تہذیب پر کھلے حملے کئے اور مشرق کا روحانی پرچم سربلند رکھا۔ اقبال نے ببانگِ دہل کہا  ؎
تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں سے آپ ہی خودکشی کریگی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
یورپ میں بہت روشنی علم و ہُنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
فسادِ قلب و نظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیال بلند و ذوقِ لطیف
علامہ اقبال کو احساس تھا کہ مشرق کا روحانی مزاج جس نے کسی دور میں سمرساٹ ماہم اور ٹی، ایس ایلیٹ کو مشرقی تصورات کے غیر مادی اندازِ فکر نے متاثر کیا تھا۔ اب مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن اقبال اپنے خطبات میں یہ تجزیہ بھی کر چکے تھے کہ مغرب کی تہذیب دراصل اسلامی تہذیب ہی کے بعض پہلوئوں کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔ لیکن اس ترقی یافتہ شکل کی آب و تاب بہت زیادہ تھی اور اس آب و تاب کو اگر انسان دل و جان سے قبول کر لیتا تو اس کا ضمیر پراگندہ ہو جاتا۔ اس کا جوہر مُردہ ہو جاتا ، باطن کی روشنی معدوم ہو جاتی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغرب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس منصوبے کی تکمیل میں ہی مصروف تھا اور علوم نو کے تحت نئے نئے نظریاتِ فکر و نظر کو بھی روبہ عمل لا رہا تھا۔ چنانچہ سائنس کی ترقی کے دور میں آئن سٹائن کے نظریے نے سابقہ افکار کی کایا پلٹ دی۔ علامہ اقبال نے فرمایا :
’’آئن سٹائن کے نظریے نے کائنات کو ایک نئے روپ میں پیش کر دیا ہے۔ لہٰذا اگر اسلامی ایشیا اور افریقہ کی نئی پود کا مطالبہ ہے کہ ہم اپنے دین (اسلام) کی تعلیمات پھر سے اجاگر کریں تو یہ کوئی عجیب بات نہیں لیکن مسلمانوں کی اس تازہ بیداری کے ساتھ اس آزادانہ تحقیق کی ضرورت بہت زیادہ ہے کہ مغربی فلسفہ ہے کیا؟ اور الٰہیات اسلامیہ کی نظرثانی بلکہ ممکن ہو تو تشکیل جدید میں ان نتائج سے کہاں تک مدد مل سکتی ہے جو اس سے مرتب ہوئے ہیں؟‘‘
علامہ اقبال نے یہ اہم ترین قومی سوال 1929ء میں اٹھایا تھا اور میں یہ بھی قیاس کر سکتا ہوں کہ اس سوال پر غور کرنے کے لئے ہی انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کا 1930ء کا سالانہ خطبہ ارشاد فرمایا اور برصغیر کے مسلمانوں کو ہندو قوم میں ضم نہ ہونے دیا۔ قوم کی سیاسی قیادت اپنی زندگی قائداعظم محمد علی جناح کو پکڑا دی اور خود قوم کو بلند آواز سے جگانے لگے  ؎
اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں
سفالِ ہند سے میناو جام پیدا کر
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
اقبال کی زندگی میں ان کے اٹھائے ہوئے سوال پر برصغیر کی مسلم اُمہ نے غور نہ کیا لیکن غنیمت نظر آتا ہے کہ ہندی مسلمان سیاسی طور پر متحرک ہو گئے اور دو قومی نظریے کو سیاسی طور پر مضبوط مطالبہ بنا لیا اور بالآخر قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان حاصل کر لیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس نوزائیدہ ملک میں مغربی فلسفے کی اصل ماہیت کو سمجھنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اقبال نے اپنی کتاب تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں جو بنیادی سوالات اٹھائے تھے وہ ابھی تک لاینحل ہیں۔ دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاست کو اس طرح الجھا دیا گیا کہ مغرب کے مادی نظریات کو فروغ ملتا چلا گیا۔ انسان کو تباہ کرنے والے ہتھیاروں میں ترقی ہوتی گئی اور اس کے ساتھ ہی انسان کی زندگی غیر محفوظ ہو گئی۔ مشرق کی روحانیت پر سیکولرزم کو کشادہ نظری کے نام پر غالب حیثیت دے دی گئی اور اس نوآزاد مسلم قوم نے جس کے سامنے ترقی کے ہزاروں راستے کشادہ تھے مغرب کی اور بالخصوص امریکہ جیسے دہشت گرد ملک کی بالواسطہ غلامی ضرورت کے تحت قبول کر لی۔ بدقسمتی سے ترقی معکوس کا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور ہمارے بعض لیڈر اقبال اور جناح کے پاکستان کا حلیہ سنوارنے کی بجائے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے دعوے کر رہے ہیں۔

مزیدخبریں