جنوبی ایشیائی ممالک میں تنگ نظری جمہوریت کیلئے خطرہ بن گئی: بی بی سی

نئی دہلی (بی بی سی/ نیٹ نیوز) ایشیا کی تاریخ میں یہ خوش آئند پہلو ہے کہ جنوبی ایشیا کے سبھی ممالک اس وقت جمہوری سیاسی نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق فی الوقت افغانستان اور نیپال ہی دو ایسے ممالک ہیں جہاں جمہوری نظام کو وہاں کی اندورنی سیاسی کشمکش سے خطرہ لاحق ہے تاہم کچھ عرصے سے جنوبی ایشیا کے سبھی ممالک میں تیزی سے ابھرتی ہوئی مذہبی تنگ نظری کا نیا خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ان ممالک میں مذہبی تنگ نظری جمہوری نظام کے لیے سنگین چیلنچ بن کر ابھر رہی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت افغانستان میں طالبان اور اس کی ہمنوا تنظیمیں امریکی افواج کے انخلا کا انتظار کر رہی ہیں۔ کابل کی حکومت بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہے۔ افغانستان کی جمہوریت کو غیر یقینی مستقبل کا سامنا ہے۔ نیپال میں طویل جدوجہد کے بعد عوام نے بادشاہت کا خاتمہ کیا، اپنے لئے جمہوری نظام منتخب کیا لیکن ابھی اس تجربے کو کچھ ہی دن ہوئے ہیں کہ کئی بڑی سیاسی جماعتیں نیپال کو ہندو مملکت میں بدلنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ بھارت کی آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد جیسی ہندو نواز جماعتیں نیپال کی اس تحریک کی مدد کر رہی ہیں۔ نیپال کیلئے نیا آئین مرتب کیا جا رہا ہے کہ جمہوریت یا مذہبی مملکت۔ اس سوال پر آئین ساز اسمبلی تعطل کا شکار ہے۔ سری لنکا میں عدم تشدد میں یقین رکھنے والے بودھ مذہب کے بہت سے راہبوں نے مسلمانوں کے خلاف تحریک چلا رکھی ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں اور ان کی رہائش گاہوں پر اکثر حملے کیے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کیخلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، برما میں تو بودھ راہب ہی نہیں وہاں کی حکومت بھی روہنگیا مسلمانوں کیخلاف ہے۔ سینکڑوں روہنگیا مسلمان مارے جا چکے ہیں، انکی متعدد بستیاں جلا کر خاکستر کر دی گئی ہیں۔ ہزاروں روہنگیا بھاگ کر بنگلہ دیش اور بھارت میں پناہ لے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں ایک عرصے سے مسلم انتہا پسند تنظیمیں زور پکڑ رہی ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں مذہب کے نام پر کئی اہم دہشت گرد تنظیمیں وجود میں آئی ہیں، ملک کی ہندو اقلیت شدید دباو¿ میں ہے۔ مذہبی اقلیتوں کیخلاف تفریق اور اہانت کے سلسلے رفتہ رفتہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ہر برس ہزاروں ہندو بنگلہ دیش چھوڑ کر بھارت میں پناہ لے رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں جمہوریت کو وہاں کی سیاسی جماعتوں سے ہی کئی بار خطرہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن ملک کو سب سے بڑا خطرہ انتہا پسندوں سے ہے۔ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے سوال پر اتفاق رائے نہ ہونے کے سبب پاکستان میں یہ چیلنج اور بھی پیچیدہ ہے۔ اقلیتیں اب زیادہ بے بس اور غیر محفوظ ہو گئی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں بھارت سب سے مستحکم جمہوریت ہے۔ یہاں پہلی بار ایک ہندو نواز دائیں بازو کی جماعت اپنے زور پر اقتدار میں آئی لیکن وہ ہندوتوا کے ایجنڈے پر نہیں ترقی اورایک بہترنظام کے نعرے پر اقتدار تک پہنچی۔ ہندو تنظیمیں پوری طرح حرکت میں آگئی ہیں۔ پچھلے دنوں دہلی کے ایک علاقے میں حکمراں جماعت کے کئی رہنماﺅں سمیت ہندو انتہا پسندوں نے ہزاروں ہندوو¿ں کی باضابطہ پننچایت میں یہ اعلان کیا کہ وہ اس علاقے سے یوم عاشور کو تعزیے کا روایتی جلوس نہیں نکلنے دیں گے۔ سینکڑوں پولیس کی موجودگی اور انتظامیہ کے دخل کے باوجود تعزیہ اسی صورت میں نکلا جب اسکا راستہ بدل دیا گیا۔ گجرات کی ایک میونسپلٹی نے قرارداد کے ذریعے شہر میں گوشت خوری پر پابندی لگا دی ہے۔ ریاست چھتیس گڑھ کے کئی گاو¿ں کی پنچایتوں نے مقامی عیسائیوں کوسرکاری راشن کی دکانوں سے راشن دینے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ عیسائیوں کو مذہب تبدیل کرنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے۔ جنوبی ایشیا غربت ، ناخواندگی ، بیماری اور پسماندگی کے اعتبار سے دنیا کے بد ترین خطے میں شمار ہوتا ہے۔ انتہا پسندی اسے مزید مشکلوں میں دھکیل رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کی غربت اور افلاس کا حل مذہبی انتہا پسندی میں نہیں صرف جمہوریت میں پنہاں ہے۔
جنوبی ایشیا / تنگ نظری

ای پیپر دی نیشن