علامہ اقبال کا قول ہے کہ توحید کے یہ معنی ہیں:’’انسانی اتحاد، انسانی مساوات اور انسانی آزادی‘‘ عملی طور پر یہی ثقافت کی روح ہے۔ اعتراض کیا جاتا ہے:’’اتحاد اور مساوات کی اہمیت تو واضح ہے لیکن ’’آزادی‘‘ کا توحید یا اسلام سے کیا تعلق؟! ’’آزادی‘‘ یا ’’مادرپدر آزادی‘‘ تو مغربی فکر کی ایجاد ہے۔ مگر مسلمان تو اپنی نماز میں آنحضورؐ کے بارے میں ’’عبدہ‘‘ ہونے کی شہادت دیتا ہے، اور ’’عبدہ‘‘ سے مراد اﷲ کا ’’بندہ‘‘ یا ’’غلام‘‘ ہوتا ہے۔ مسلمان تو دراصل اﷲ کا ’’غلام‘‘ ہے۔ پس اسلامی تہذیب کا ’’آزادی‘‘ سے کوئی واسطہ نہیں۔ آنحضورؐ کے بارے میں ’’عبدہ‘‘ کی اصطلاح کی وضاحت اقبال’جاوید نامہ‘ میں منصور حلاّج سے کرواتے ہیں۔ منصور حلاج کہتا ہے: مقام مارمیت میں دشمن پر کنکریاں آنحضورؐ کے ہاتھ نے نہیں بلکہ اﷲ کے ہاتھ نے پھینکی تھیں۔ اس بنا پر اگر کھل کر بات کی جائے تو اﷲ آپ ہی ’’عبدہ‘‘ ہے۔ پس بقول اقبال انسان اﷲ کا ’’غلام‘‘ نہیں بلکہ اس کا ’’ہمکار‘‘ بن سکنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ بشرطیکہ ارتقا کے عمل میں وہ اپنے اندر کے حیوان پر قابو پا کر اس مقام پرپہنچ جائے کہ ’’ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔‘‘ اسلامی ثقافت کی روح میں مثبت ’’آزادی‘‘ کے تصور سے انکار کرنے اور اﷲ کی ’’غلامی‘‘ پر اصرار کرنے والوں نے ہی اسلام میں ملوکیت کو رائج کیا، سلاطین کو زمین پر اﷲ کا سایہ قرار دیا اور یوں جاہلیت کے زمانے کی طرف واپس چلے گئے۔ ملوکیت کے دور میں کالے غلام کو ’’عبد‘‘ اور گورے غلام کو ’’مملوک‘‘ کہا گیا۔ عام کنیز، ’’باندی‘‘ یا خدمت گزار قرار پائی اور کسی خوبی یا وصف کی مالک باندی کو ’’جاریہ‘‘ کہا گیا۔
ثقافت اسلامی روح کے موضوع پر علامہ اقبال نے ’’فکر اسلامی کی تشکیل نو‘‘ کے ایک خطبہ میں مدلل بحث کی ہے، جسے میری دانست میں دیگر خطبوں اور کلام اقبال کی روشنی میں پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اقبال کے نزدیک ’’توحید ورسالت‘‘ کے پس منظر میں اسلام اپنی ثقافت کے ذریعے مسلمانوں کو ایسی مثبت آزادی کا پیغام دیتا ہے جس کی چار اہم جہتیں ہیں۔ آزادی کے اس پیغام کو اقبال ’’ختم نبوت‘‘ کے اپنے مخصوص تصوّر کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔
آگے بڑھنے سے پیشتر چند امور کے بارے میں وضاحت کی ضرورت ہے۔ مثلاً ختم نبوت کے قرآنی حکم کی تائید اگرچہ احادیث نبوی سے ہوتی ہے، آنحضورؐ کی رحلت کا مسلمانوں پر بحیثیت مجموعی کیا اثر ہوا؟ رشدو ہدایت کا ایک جاری سلسلہ یک دم ختم ہو گیا۔ سوال اٹھا: اب مستقبل میں رشدو ہدایت کہاں سے آئے گی؟ کہا گیا: علماء و اولیاء اﷲ رہبری کرتے رہیں گے۔ پھر بارہ اماموں، سات اماموں، امام غائب اور اس کا ظہور، امام منتظر اور امام حاضر وغیرہ کے فرقوں کے علاوہ نئے عقیدوں بابیت، بہائیت، احمدیت نے جنم لیا۔ گویا ’’ رشد و ہدایت کہاں سے آئے گی‘‘ کے مسئلے پر اسلامی تہذیب متفرق فرقوں بلکہ عقیدوں میں بٹ گئی اور یہ صورت اب بھی قائم ہے۔
’’ختم نبوت‘‘ کے بارے میں اقبال کا تصور اگرچہ بظاہر انوکھا اور غیر معمولی ہے وہ عقلی اعتبار سے قرآنی حکم ’’شوریٰ بینھم‘‘ کے ساتھ حضرت عمرؓ کے ان الفاظ: ’’آنحضورؐ رحلت فرما گئے۔ اب قرآن ہماری رہبری کے لئے کافی ہے۔‘‘ پراستوار ہے۔ اقبال فرماتے ہیں: اسلام کانزول انسانی تاریخ کے اس دور میں ہوا جب انسان کی ’’عقل استقرائی‘‘ اتنی پختہ اور بالغ ہو چکی تھی کہ اسے پیغمبروں، مذہبی پیشوائوں اور بادشاہوں جیسے سہاروں کی ضرورت نہ رہی تھی گویا انسان کو ایسے سہاروں کی ضرورت تب تھی جب وہ ارتقاء کے عہد طفلی میں، ماحول سے خوفزدگی کے باعث، اپنی ’’عقلِ استخراجی‘‘ کے زیراثر، روایت یا تقلید کا پابند تھا۔ اسلام نے نبوت کے خاتمہ کا اعلان کیا۔ اسلام میں کسی قسم کی مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں۔ اسلام کے اوائلی دور ہی میں مسلمانوں نے ساسانی اور رومن سلطنتوں کو مٹا کر ثابت کردیاکہ ملوکیت کا تعلق عہدپارینہ سے تھا، اسلام کے ساتھ بادشاہت یا کسی قسم کی آمریت کا کوئی تعلق نہیں۔ پس اقبال سمجھتے ہیں کہ اسلام مسلمانوں کو جس آزادی کا پیغام دیتا ہے اس کی پہلی جہت ’’سلطانی جمہور‘‘ ہے۔ یعنی مسلمانوں کو اب جمہوری نظام چلانے کی ذمہ داری بجائے خود قبول کرنی ہے۔ یہ جمہوریت نہ تو اقبال اسے ’’روحانی جمہوریت‘‘ کا نام دیتے ہیں جس سے مراد ایسی جمہوریت ہے جس میں ہر مذہب کے پیرکاروں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ بلکہ اقبال تو اس میں ’’توہینِ بانیانِ ادیان‘‘ کے تحت سزا کے قانون کا نفاذ چاہتے تھے۔
اس آزادی کی دوسری جہت کے بارے میں اقبال فرماتے ہیں: رسول اللہؐ زمانہ قدیم اور زمانہ جدید کے درمیان ایک پل کی طرح ہیں۔ قدیم کے ساتھ ان کا واسطہ بطور وحی کے سرچشمہ کے ہے اور جدید سے تعلق اس بنا پر ہے کہ اپنی حیات کے دوران ہی میں آنحضورؐ نے ’’اجتہاد کی اجازت دے دی تھی۔ پس قانون سازی کے لیے مسلمان اب خود وحی کی تغیر کے قائل ہیں۔ اس ضمن میں اقبال مسلمانوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ’’ثبات‘‘ اور ’’تعبیر‘‘ کی اقدار میں تفریق کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی عادت ڈالیں گے۔ بقول اقبال ’’ثبات‘‘ ان قوانین کو حاصل ہے جو ’’عبادت‘‘ سے متعلق ہیں۔ مگر وہ شرعی قوانین جن کا تعلق ’’معاملات‘‘ سے ہے، وقت کے تقاضوں کے تحت بدلے جا سکتے ہیں۔ اقبال سمجھتے ہیں ’’معاملات‘‘ کے بارے میں جو اجتہادات گذشتہ زمانوں میں فقہا نے کئے، وہ ان زمانوں کی ضروریات کے مطابق درست تھے، لیکن آج کے زمانے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اس لیے وقت کے تقاضوں کے پیش نظر ’’اجتہاد مطلق‘‘ کی ضرورت ہے، جو ’’اجماع‘‘ کی ہیئت میں یا ’’کثرت رائے‘‘ کے اصول کے تحت کیا جائے۔ پس اقبال کے ہاں اسلامی ثقافت میں ’’اجتہاد‘‘ اصول حرکت ہے اور اس کا عدم وجود مسلم معاشرے کی تباہی اور موت کا باعث بن سکتا ہے۔
آزادی کی تیسری جہت عقلی اور تجربی علوم کی تحصیل کی خاطر مسلمان کلی طور پر آزاد ہیں۔ اسلامی علوم اور غیر اسلامی علوم میں امتیاز کی قطعی کوئی اہمیت نہیں۔ اقبال ثابت کرتے ہیں کہ مشاہداتی علوم کی ابتداء اسلامی تہذیب میں ہوئی۔ ’’تجربی اصول‘‘ اسلامی فکر کی ایجاد ہے۔ ’’سائنسی منہاج‘‘ مسلمانوں کی دریافت ہے۔ اقبال اپنے تمام ایسے دلائل کی تائید میں بریفو کی تصنیف ’’تشکیل انسانیت‘‘ سے یہ اقتباس پیش کرتے ہیں:
’’یورپی تمدن کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس سے اسلامی تہذیب کے زیر اثر طبیعاتی علوم اور ’’سائنٹیفک اسپرٹ‘‘ کا فروغ ہے۔‘‘
اقبال بالآخر یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ جدید یورپی کلچر میں عقلی اور تجربی علوم کی ترقی دراصل اسلامی تہذیب کی ہی توسیع ہے۔ اس بنا پر مسلمانوں کے لئے اس کا اپنانا کسی اجنبی کلچر کو اپنانا نہیں بلکہ اپنے ہی فراموش کردہ راستہ پر واپس جانا ہے۔ اسلامی ثقافت کی روح پر بحث کے سلسلہ میں آزادی کی چوتھی جہت جو اقبال کی نگاہ میں نہایت اہم ہے وہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کا مسلمان کے ’’خلاق‘‘ ہونے پر اصرار ہے۔ اس دائرے میں شاعر، ادیب، مصور سبھی آ جاتے ہیں۔ اقبال کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی روح انسان میں پھونک رکھی ہے اور وہ ارتقاء کے ہر مرحلے پر اپنی طرح اس کے ’’خلاق‘‘ ہونے کی توقع رکھتا ہے۔ پس اقبال اللہ تبارک تعالیٰ ہی سے ’’جاوید نامہ‘‘ میں کہلواتے ہیں ؎
ہر کہ او راقوتِ تخلیق نیست پیش ما جز کافر و زندیق نیست!
از جمالِ ما نصیب خود نبرد از نخیل زندگانی برنخورد
(جس کسی میں بھی تخلیق کی قوت موجود نہیں، وہ ہمارے نزدیک کافر و زندیق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس نے ہمارے جمال میں سے اپنا حصہ نہیں لیا۔ وہ زندگانی کے درخت کا پھل کھانے سے محروم رہا)…(جاری)