پشاور+ سرگودھا (بیورو رپورٹ+ نامہ نگار+ ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ قومی اتفاق رائے سے بنائے گئے 1973ءکے آئین کو ماضی کے حکمرانوں نے اپنے پیروں تلے بڑی بے دردی سے روندا اور اپنے دور اقتدار کو طول دینے کےلئے آئین کو بُری طرح مسخ کیا اس کے ساتھ ساتھ دور آمریت میں بھی جمہوری اداروں اور سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے کےلئے بھرپور کوششیں کی گئی آئیے آج ہم سب مل کر اختلافات بھلا کر ایک ہو جائیں کیونکہ ساری سیاسی جماعتیں ہی مل کر آمریت کا راستہ روک سکتی ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے حیات آباد میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے بانی امیر مفتی محمود (مرحوم) کے حوالے سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی رہنماﺅں کو ایک دوسرے کی سوچ و فکر برداشت کرکے ملک میں جمہوریت کو آگے بڑھانا ہوگا اس لئے تمام سیاسی جماعتوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اختلافات بالائے طاق رکھ کر وفاق کو مضبوط بنائیں، معاشی استحکام لانے کےلئے ملک میں بلا امتیاز احتساب کی ضرورت ہے کیونکہ وطن عزیز اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہ ہو اس وقت تک ملک و قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ ان مقاصد کے حصول کےلئے تمام سیاسی قوتوں کو اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ مفتی محمود علمی، سیاسی و مذہبی اعتبار سے مثالی شخصیت تھے ان سمیت ملک میں کئی ایسی دوسری شخصیات بھی گزری ہے جو پوری دنیا کےلئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کےلئے آج بھی ملک کے 20کروڑ عوام کے دلوں میں بے پناہ محبت موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے ملک و قوم کو متفقہ طور پر 73کا آئین دیا جس میں مفتی محمود (مرحوم) کا کردار قابل ستائش و تحسین ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ ہمارے درمیان ایک دوسرے کے فکر و سوچ کو برداشت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان آج تاریخی موڑ پر کھڑا ہے جہاں سے تمام راستوں کے علاوہ صرف ایک ہی نجات کا جمہوری راستہ باقی ہے جو ملکی استحکام اور بقا کا راستہ ہے۔ ملک کو جمہوری راستے پر چلنے نہ دیا تو وفاق پر ایسے گہرے بادل منڈلائینگے کہ تاریخ میرے سمیت کسی کو معاف نہیں کریگی۔ وفاق کی مضبوطی کے لئے تمام سیاسی قوتیں اختلافات بھلا دیں، جمہوریت ہی وفاق کی مضبوطی کا واحد راستہ ہے، ایک بار پھر سب کو ایک قوم بن کر سوچنے کی ضرورت ہے، ایک دوسرے کی سوچ کو برداشت کرنا ہوگا، ماضی میں آمروں نے آئین کو پیروں تلے روندا۔ ملک کی مضبوطی اور آئین کی بالادستی کےلئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی۔ آئین کی مکمل آزادی ہی جمہوری اداروں کی مضبوطی کا راستہ ہے۔ مفتی محمود مرحوم جیسی شخصیات کو رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ سیاسی شخصیات میں چند ہی ہیں جن کا عوام دل سے احترام کرتے ہیں جن میں مولانا مفتی محمود سرفہرست ہیں ۔ پاکستان کل جس دوراہے پر کھڑا تھا وہاں آج بھی کھڑا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اداروں کے درمیان مذاکرات کی ضرورت ہے۔ دور آمریت میں ایک سیاسی جماعت کو دوسری سے لڑایا گیا۔ ماضی میں ایک آمر نے آئین کو پیروں تلے روند دیا، تمام جمہوری قوتیں اختلافات بھلاکر ملکی استحکام کیلئے کام کریں۔ آج اداروں کے درمیان مذاکرات اور گفتگو کی ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اداروں کے درمیان روابط بڑھیں۔ اس ضمن میں سینٹ نے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ آپس میں مل کر بیٹھیں، کوئی درمیانی راستہ ضرور نکلے گا، درمیانی راستہ ہی قوم کی بھلائی کا راستہ ہے، کرپشن نے معاشرہ کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔پسند ناپسند کی بجائے کرپشن کیخلاف بلاتفریق آپریشن ہونا چاہئے۔ جمہوری ادارے ٹھیک طریقے سے کام نہ کریں تو دوسرا ادارہ مداخلت کرتا ہے۔ سرگودھا میں سابق وفاقی وزیر تسنیم قریشی کے بیٹے کی شادی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ ورکنگ باﺅنڈری اور ایل او سی پر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کے ذریعے چھیڑچھاڑ افسوسناک ہے‘ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے ‘جارحیت کی تو منہ توڑ جواب دیں گے‘ کراچی میں جاری آپریشن کے اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔ چیف جسٹس کا سینٹ سے خطاب خوش آئند ہے، جمہوریت مضبوط بنانے کیلئے اداروں کو ملکر کام کرنا چاہئے۔ عوام کا لوٹاہوا پیسہ واپس ہونا چاہئے۔ بھارت کسی غلط فہمی میں نہ رہے، ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ کرپشن نے معاشرے کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا ہے، کرپٹ لوگوں کیخلاف بلا تفریق کارروائی ہونی چاہئے۔ ہم سب کو مل کر جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کردار ادا کرنا چاہئے، کرپشن کے خاتمے تک ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ معاشی استحکام کیلئے بلا امتیاز احتساب کی ضرورت ہے، بھارت میں اقلیتو ں پر مظالم افسوسناک مگر مغرب کی خاموشی زیادہ افسوس ناک ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہاکہ حکمرانوں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حکومت اپنے اڑھائی سال میں عوام کو ریلیف دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ حکومت انتخابات کے دوران کیا گیا اپنا کوئی وعدہ پورا نہیںکر سکی۔ وفاقی حکومت نے ملک کو قرضوں کے پہاڑ تلے دفن کر دیا ہے۔ عمران خان کے لئے مشورہ ہے کہ اب کچھ عرصہ آرام کریں، قومی اسمبلی کی سپیکر شپ کے امیدوار سے دستبر دار کرانے کے لئے میرا شفقت محمود سے کوئی رابطہ نہیں، بلدیاتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ فوج کی نگرانی میں ہونا چاہئے، عوام پینے کے صاف پانی اور صحت کی سہولیات کو ترس رہے ہیں، حکمران میٹرو منصوبے بناکر فخر کر رہے ہیں ،کرپشن کے نام پر انتقامی کارروائی نہیں ہونی چاہئے ،کیا پنجاب کے حکمران دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ حکومت نے ملک کو قرضے میں ڈبو دیا۔ حکومت میٹرو بس اور ٹرینوں پر پیسہ ضائع کر رہی ہے۔ عمران خان صرف باتیں کرتے ہیں ¾ خیبر پی کے میں کیا کچھ نہیں ¾ میٹرو سے ووٹ نہیں ملتے ¾ میڈیا نے قائم علی شاہ کی عزیزہ کا ٹھپہ لگانا بڑھا کر دکھایا۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپنا لیڈر مانتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ وہ نواز شریف کی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی حمایت کرتے ہیں اور پارلیمنٹ کی حفاظت کر تے رہیں گے، جمہوریت کےلئے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور ذو الفقار علی بھٹو نے قربانیاں دی ہیں جمہوری نظام کو کسی کو نقصان نہیں پہنچانے نہیں دینگے۔ سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا کہ اگر حکومت کے متعلق کوئی کرپشن کا کیس سامنے آئے تو وہ آڈٹ حکام کو بھیجا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا کیس سامنے آئے تو وہ نیب کے پاس بھیجا جاتا ہے، اور پیپلز پارٹی کا ٹرائل بھی کر دیا جاتا ہے، عمران خان سیاست میں غصے کو پی جانے کی صلاحیت پیدا کریں، سیاست میں ہر ایک کے ساتھ ملنا پڑتا ہے۔ ریحام خان سے شادی کا مسئلہ نہیں اچھالنا چاہئے، جنرل راحیل شریف کی پیشہ وارانہ صلاحیت سے ضرب عضب اپنی تکمیل کے نزدیک ہے، اس حوالے سے میں جنرل راحیل شریف کو مبارکباد اور سلام پیش کرتا ہوں،بیرونی خدشات کی صورتحال بہت خراب ہے، بھارت کبھی ہم سے خوش نہیں ہو گا۔ سندھ سے سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، صوبوں کی فنڈز کی تقسیم کا عمل میاں نوازشریف خود دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم میں کوئی بھی حاجی نہیں۔