منصورالرحمن آفریدی کی گفتگو سے پہلے برادرم عالم صاحب نے نعت رسولؐ مقبول پڑھکر ایک سماں طاری کر دیا۔ اس میں ایک مصرعے کے اندر عشق اور آگہی کے کئی دروازے کھلتے چلے گئے۔ جو اسرار رسول کریمﷺ کی ذات پر کھلے وہ کسی اور نہ کھل سکے مگر وہ جو عشق رسولؐ میں کھو جائیں۔ کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دہراتی چلی جاتی ہے۔ ہم اس کو احیائے اسلام کہہ سکتے ہیں۔ کچھ لوگ نشاۃ ثانیہ بھی کہتے ہیں۔ عہد نبویؐ کی بازگشت بھی بلاشبہ آپؐ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہستی ہیں۔ آپ کا نام قانون سکھانے والے سب سے بڑے ادارے کی پیشانی پر سب سے پہلے سب سے اوپر لکھا ہوا ہے۔ جنہوں نے انسانوں کو اچھی طرح زندہ رہنے کا سبق دیا، سلیقہ دیا، ضابطہ حیات دیا، زندگی بسر کرنے کا قانون دیا۔ بانی پاکستان نے یہی نام پڑھ کر اس ادارے میں داخلہ لیا۔ بلاشبہ قائداعظم بہت بڑے عاشق رسول تھے۔
آپؐ کے آخری خطبے کو آج بھی منشور انسانیت تسلیم کیا جاتا ہے۔ آفریدی صاحب نے عجیب بات کی تھی کہ اتنے مختصر وقت میں آپؐ نے سب کچھ بیان کر دیا۔ سارا دین اتنے اختصار کا اختیار کسی دوسرے کو نہیں۔ کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔ ترجیح نہیں۔ گورے کو کالے پر امیر کو غریب پر عربی کو عجمی پر اور آج کے زمانے کے اعتبار سے کسی امریکی کو افریقی پر مگر تقوے کے جو اچھا ہے وہی اچھا ہے۔ آج بھی فتوے کی بجائے تقوے پر ایمان قائم ہو جائے تو دنیا جنت بن جائے اور حضورؐ دنیا میں صرف اس لیے نہ آئے تھے کہ آخرت میں جنت کا وعدہ ساتھ لائے تھے۔ وہ اس دنیا کو بھی جنت بنانے آئے تھے۔ اور انہوں نے جنت بنا کے دکھا دی۔ آج بھی ان کے مطابق زندگی گزاری جائے تو یہ دنیا جنت بن جائے جبکہ اس دنیا کو جہنم بنانے والے آج کل بڑے سرگرم اور متحرک ہیں؟
آفریدی صاحب نے احیائے اسلام کا واقعہ کربلا سے تعلق جوڑا اور یہ مشہور شعر پڑھا۔ ہم یہ شعر سنتے ہیں مگر اس پر غور نہیں کرتے۔
قتل حسینؓ اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ہم عہد کربلا میں زندہ ہیں۔ ہر طرف یزیدیت کا راج ہے۔ ظلم و ستم بے انصافی بداخلاقی دین و دنیا کی رسمی صورتحال ہر طرف بکھری ہوئی ہے۔ جمہوریت کے نعرے لگتے ہیں مگر ملوکیت اور آمریت مسلط ہے۔ طاقت اور اختیار کا رواج ہے مگر کوئی بھی فقیری اور بے اختیاری کے ذوق سے آشنا نہیں ہے۔ حسینی قافلے میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے مگر علامہ اقبال کے بقول:
قافلہ حجاز میںایک حسین بھی نہیں
صرف قربانی کی کہانی رہ گئی ہے۔ اس کہانی کے کردار گم ہو گئے ہیں۔ ہمارے اندر ہی گم ہوئے ہیں۔ ارادہ تو آفریدی صاحب کا کسی اور موضوع پر گفتگو کا تھا مگر اسے نشاۃ ثانیہ کا موضوع بنا دیا۔ احیائے اسلام کی بات کو قیادت حسینؓ کے ساتھ جوڑ دیا۔ اسلام ہر کربلا کے بعد زندہ ہو گا۔ کتنی کربلائیں ہمارے زمانے میں قائم کر دی گئی ہیں اب یہاں جذبہ حسینیت زندہ کر کے ہی کوئی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔
اسی کے لئے پاکستان قائم ہوا ہے جسے میں خطہ عشق محمدؐ کہتا ہوں۔ برصغیر کی طرف انگشت شہادت کا اشارہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا مجھے اس طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ برصغیر میں پاکستان کے قیام کی بات ایک خوشخبری کی طرح ہے۔ ہر خبر خوشبو کی طرح پھیلنے والی ہے کہ ساری دنیا اس سے نکھر نکھر جائے گی۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
میرؐ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
غزوۂ ہند کی روایت بھی تاریخ میں موجود ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا ذکر احادیث رسولؐ میں بھی ہے۔ غزوہ اس لڑائی کو کہتے ہیں جس میں حضور رسول کریمؐ بذات خود بنفس نفیس شرکت کریں۔ وہ شرکت کریں گے اور شرکت کی کئی قسمیں ہیں۔ اس میں صاحب عرفان بابا عرفان الحق کی بات بہت اہم ہے کہ جس طرح فتح مکہ بغیر لڑے واقع ہو گئی تھی اس میں بھی بغیر لڑے ہوئے سب کچھ فتح ہو جائے گا۔ دلوں کو جیت لینا سب سے بڑی فتح ہے۔ آج جنگوں میں ہزاروں لوگ قتل ہوتے ہیں، قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ حضورؐ نے جتنی جنگیں لڑی ہیں اس میں کل 1018 لوگ شہید اور قتل ہوئے۔
منصور الرحمن آفریدی نے کہا کہ احیائے اسلام کیلئے کسی کام کے آغاز میں بسم اللہ پڑھنا عادت بنا لینا چاہئے اور یہ روایت پاکستان میں ہے کہ کلام الٰہی قرآج مجید کی تلاوت پر محفل کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے بعد نعت رسولؐ بھی ضرور پڑھی جاتی ہے۔ نعت خوانی کا رواج عام ہو گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا تھا… ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ (ہم نے تیرے ذکر کو بلند کر دیا)۔ یہ ذکر کرنے والے بھی سربلند ہونگے۔
اعلان نبوت سے پہلے آپ صادق اور امین تھے۔ صادق اور امین ہونا اسلام اور انسانیت کی پہلی شرط ہے۔ ہمارے ہاں ممبران اسمبلی کیلئے یہ ایک رسمی سی شرط ہے۔ اگر یہ موثر ہو جائے تو ہم دنیا کی نمائندگی کرنے لگیں مگر اس وقت کے آنے تک ابھی کچھ دیر ہے…؟
پکا مسلمان اور اچھا انسان بننے کیلئے علم حاصل کرنا بڑا ضروری ہے۔ مسلمان ہونا اچھے انسان کی طرح ہے۔ قرآن کریم میں علم کی اہمیت اور فضیلت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اس کے بغیر دنیا میں اچھائی اور ترقی پانا ممکن ہی نہیں ہے۔ کہا گیا کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اس میں علم کی طاقت کا اشارہ ہے اور چین جانے کی بات میں بھی کوئی اشارہ موجود ہے جسے سمجھنا ہمارے بااختیار لوگوں کا کام ہے۔ چین میں دینی علم سیکھنے کی تو کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ علم مومن کی گمشدہ میراث جہاں سے ملے اٹھا لو۔ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ علم والا آدمی خوش اخلاق اور خوش کلام ہو گا۔ میٹھی اور اچھی گفتگو مسلمان اور انسان کی پہچان ہے۔ خوش کلامی اور خوشدلی میں فر ق نہیں ہوتا۔ جو بھی رسول کریمؐ کی بات سنتا تھا، مسلمان ہو جاتا تھا اچھا انسان ہو جاتا تھا۔ پکا مسلمان ہونے میں ہی اچھا انسان ہونے کی خوبیاں موجود ہیں قرآن کا مخاطب انسان ہے۔ یا ایہا الناس۔ سامنے سے آنے والے کو السلام علیکم کہنا اس پر سلامتی بھیجنا ہے۔ سلام کرنے سے پہلے اس سے یہ پوچھنا ضروری نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہے؟ سب انسانوں پر سلامتی بھیجنا نیکی ہے۔ بابا عرفان نے اس حدیث کہ ’’ماں کے قدموں تلے جنت ہے‘‘ کی تشریح میں فرمایا کہ یہاں ماں کی تخصیص نہیں، وہ بوڑھی ہے یا جوان مسلمان ہے یا غیر مسلم۔ ماں ماں ہے جس کسی کی بھی ہو۔
آخر میں سیرت رسولؐ سے ایک واقعہ۔ راستے میں ایک بوڑھی کمزور عورت کھڑی تھی کہ رسول کریمؐ کا گزر ہوا۔ اس نے کہا کہ کوئی میری مدد نہیں کرتا، مجھے دوسری بستی میں جانا ہے اور میرا یہ سامان لے جانے میں کوئی مدد نہیں کرتا۔ حضورؐ نے سامان اٹھایا اور اس کے ساتھ چل دیے۔ راستے میں پوچھ لیا کہ مائی جی کیوں اپنی بستی چھوڑ کر جا رہی ہو۔ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے یہاں کوئی آیا ہے وہ جس سے بات کرتا ہے وہ اپنا عقیدہ تبدیل کر کے اس کا غلام بن جاتا ہے۔ میں اس بڑھاپے میں اپنا دین بچانا چاہتی ہوں۔ اس لئے یہاں سے دور جا رہی ہوں۔ آپؐ خاموش رہے اور چلے رہے۔ دوسری بستی آئی اور آپ رخصت ہونے لگے تو بوڑھی مائی نے پوچھا کے آپ نے بتایا نہیں ہے کہ آپ کون ہو۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں وہی ہوں محمدؐ جس سے لوگ آپ کو ڈراتے ہیں۔ وہ بوڑھی دم بخود ہو گئی اور کہا کہ میرا ایک کام اور کردو مجھے اپنی بستی تک لے جائو۔ حضورؐ نے اسلام اسی طرح پھیلایا، یہی انسانیت کی معراج ہے۔