”اقبال اور خطہ جنت نظیر کشمیر“

Nov 09, 2016

خواجہ عثمان احمد
حاجب نہیں اے خطہ¿ گل شرح و بیاں کی
علامہ کا قلب سلیم مظلوم کشمیری مسلمانوں کے لئے جذبہ ایثار و قربانی سے لبریز تھا
کشمیریوں کی تباہی کا ذمہ دار ڈوگرہ راج کے استحصالی نظام کو گردانتے تھے
اہلیان کشمیر جس عبقری شخصیت پر ہمیشہ نازاں رہیں گے اور اسکی خطہ کشمیر سے نسلی وابستگی کو اپنے لئے باعث فخر گردانتے رہیں گے وہ عظیم المرتبت شخصیت مشہور فلسفی‘ مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کی ہے۔ انکے وجود منصود پر نہ صرف اہل مشرق فخر محسوس کرتے ہیں وہاں سرزمین گل و چمن کشمیر کو بھی ناز ہے کہ دنیائے مشرق کا عظیم فلسفی‘ مفکر اور انقلابی و آفاقی شاعر اقبال کشمیری نژاد تھا اور اپنے کشمیری النسل ہونے پر ان کو ہمیشہ ناز رہا۔
علامہ اقبال کشمیری پنڈتوں کی مشہور گوت ”سپرو“ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ اپنی گوت کی بابت مشہور کشمیری مورخ منشی محمد دین فوق کو اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں۔ ”کشمیری برہمنوں کی جو گوت سپرو ہے اسکے اصل کی بابت جو والد سے سنا وہ عرض ہے جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو براہمن کشمیر مسلمانوں کے علوم و زبان کیطرف بوجہ قدامت پرستی یا اور وجوہ کے توجہ نہ کرتے تھے۔ اس قوم میں سب سے پہلے جس گروہ نے فارسی زبان کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کرکے حکومت اسلامیہ کا اعتماد حاصل کیا وہ سپرو کہلایا اس لفظ کے معنی ”وہ شخص جو سب سے پہلے پڑھنا شروع کرے“ کے ہیں۔ رفتہ رفتہ یہ نام ایک گوت بن کر رہ گیا“۔
علامہ محمد اقبال کے جدامجد حضرت بابا لولی حاجی وادی کشمیر کے موضع چکوجلند پر گنہ آدون کے رہنے والے تھے آپکا احوال خواجہ محمد اعظم دیدہ میری کی کشمیر کے متعلق مشہور تالیف تاریخ اعظمی اور حاجی محمد مسکین کی تصنیف ”تذکرہ تحائف الابرار“ میں بھی مذکور ہے۔ آپ کشمیر کے مشہور مشائخ صوفیاءمیں سے ایک تھے بارہ برس وادی کشمیر کے باہر دوسرے ممالک کی سیر و سیاحت میں مصروف رہے اور بالاخر واپس کشمیر وارد ہوکر اشارہ غیبی پاکر حضرت بابا نصر الدین کے مرید ہوئے جوکہ مشہور کشمیری صوفی بزرگ حضرت شیخ نور الدین ولی کے مرید و خلیفہ تھے۔ حضرت نور الدین ولی کا کشمیر میں صوفیا کے ریشیہ سلسلہ کی اشاعت و ترویج میں اہم کردار اظہر من التمش ہے۔ آپ خطہ کشمیر میں صوفیا کرام کے ریشیہ سلسلہ کے بانی تصور کئے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ تصوف ”ریشیہ اوسیہ‘ق سے موسوم ہے۔ حضرت بابا لولی حاجی نے بقایا تمام عمر اپنے شیخ مرشد حضرت بابا نصرالدین کی خدمت میں گزار کر بعداز وفات چرارشریف میں اپنے روحانی مرشد کے مزار کے پاس ہی آسودہ خاک ہوئے۔ مورخین حضرت بابا لولی حاجی کے زہد و تقویٰ اور حقوق العباد پر عمل پیرا ہونے کی بناءپرآپکا شمار کشمیر کے ممتاز صوفیا کبار میں کرتے ہیں۔
علامہ محمد اقبال کے پردادا شیخ جمال دین نے اٹھارہویں صدی میں اپنے چار فرزندوں شیخ عبدالرحمن‘ شیخ محمد رمضان‘ شیخ محمد رفیق اور شیخ عبدالرشید کی معیت میں وادی گل و چمن کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں آکر سکونت اختیار کی۔ اقبال کے دادا بزرگوار شیخ محمد رفیق نے 1861ءمیں سیالکوٹ میں وہ حویلی خریدی تھی جو بعدازاں ”اقبال منزل“ کے نام سے موسوم ہوئی اور اس تاریخی رہائش گاہ میں علامہ اقبال کی پیدائش ہوئی۔ آپ کا خاندان روحانیت‘ تصوف‘ علم خطا بت اور ذوق معرفت میں اپنی مثال آپ تھا اور اقبال کو یہ تمام اعلیٰ صفات اپنے اکابر سے ورثہ میں ملی تھیں۔
علامہ اقبال کو ابتداءسے ہی کشمیری مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا اشد احساس تھا جسکا اظہار وہ اپنے اشعار سے کرتے تھے چنانچہ اس ضمن میں لاہور میں مقیم کشمیری برادری کی فروری 1896ءمیں قائم کردہ ”انجمن کشمیری مسلمانان“ کے پہلے ہی اجلاس میں اقبال نے اپنے قلبی جذبات و احساسات کی ترجمانی اپنے 27 اشعار پر مبنی قطعہ سے کی ہے جوکہ انکی اہلیان کشمیر سے وابستگی کی غماضی کرتا ہے۔ ایک جگہ علامہ کشمیر سے جدائی کے لمحات کو یوں بیان کرتے ہیں۔
”موتی عدن سے لعل ہوا ہے یمن سے دور
یا نافہ غزال ہوا ہے ختن سے دور
بلبل نے آشیانہ بنایا چمن سے دور“
علامہ اقبال کی کشمیر سے قلبی انسیت کا آپکے قطعات اور رباعیات سے بغور مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ جاوید نامہ میں سید علی ہمدانی اور ملا طاہر غنی کی زبان سے اہل کشمیر کو بیداری و حریت کا درس دیتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ارمغان حجاز میں کشمیری قوم کو ڈوگرہ عہد کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کا پیغام حریت دیتے ہیں۔ خطہ کشمیر سے علامہ کی دلچسپی کا محور 1896ءسے لے کر آپکی رحلت تک پورے 43 برس کے طویل عرصہ پر محیط ہے اس طویل عرصہ کے دوران اقبال اہلیان کشمیر کو اپنی سیاسی بصیرت اور انقلابی شاعری کے ذریعے آزادی‘ حریت‘ بیداری‘ اتحاد و یگانگت کا زریں درس دیتے نظر آتے ہیں۔
یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علامہ اقبال کا قلب سلیم مظلوم کشمیری مسلمانوں کے لئے جذبہ محبت و ہمدردی اور ایثار و قربانی سے لبریز تھا جس کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً اپنے اشعار کے ذریعے کرتے رہے ہیں چند اشعار قارئین کی نذر ہیں ۔
”جاں زاھل خطہ سوز دچو پسند
خیزد از دل نالہ ہائے درد مند
زیرک ودّراک و خوش گل ملتے است
درجہاں تو دستی¿ او آیتے است
از خودی تابے نصیب افتادہ است
در دیار خود غریب افتادہ است
در زمانے صف شکن ہم بودہ است
چیرہ و جانباز و پردُم بودہ است“
اقبالؒ اہلیان کشمیر کو خودشناسی، شجاعت، عمل پیہم، اتحاد و اتفاق، اعمال صالحہ اور خودی کا پیغام حقیقی دیتے ہیں۔ وہ کشمیریوں کی تباہی کا ذمہ دار اُس ڈوگرہ راج کے استحصالی نظام کو گردانتے ہیں جس کی بدولت کشمیری دستکار کو اپنی محنت کا حقیقی معاوضہ بھی نہیں مل پاتا۔ علامہؒ اہلیان کشمیر کی زبوں حالی اور معاشی پسماندگی کو دیکھ کر نہایت کرب کی کیفیت میں اپنے اس الم کا اظہار درج ذیل اشعار میں کرتے ہیں۔
”حاجب نہیں اے خطہ¿ گل شرح و بیاں کی
تصویر ہمارے دل پر خون کی ہے لالہ
تقدیر ہے اک نام مکافات عمل کا
دیتے ہیں یہ پیغام خدایان ھمالہ
سرما کی ہواﺅں میں ہے عریاں بدن اس کا
دیتا ہے ہنر جس کا امیروں کو دوشالہ“
1937ءمیں تحریرکردہ تین اشعار پر مبنی اپنی ایک نظم میں اہل مشرق کی مظلوم اقوام کی سیاسی بیداری، حق خودارادیت اور انقلابی سعی کا احوال بیان کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کے محکوم و مظلوم مسلمانوں کو بھی آزادی کا مژدہ سناتے ہوئے پراُمید نظر آتے ہیں۔
”دراج کی پرواز میں ہے شوکت شاہیں
حیرت میں ہے صیاد یہ شاہیں ہے کہ دراج
ہر قوم کے افکار میں پیدا ہے تلاطم
مشرق میں ہے فردائے قیامت کی نمود آج
فطرت کے تقاضوں سے ہوا حشر پہ مجبور
وہ مردہ کہ تھا بانگ سرافیل کا محتاج“
علامہ اقبالؒ نے ”ساقی نامہ“ جو کہ بیس اشعار پر مبنی ایک شاہکار نظم ہے جو کہ 1923ءمیں ان کے فارسی مجموعہ ”پیام مشرق“ میں شائع ہوئی۔ اِس نظم کے ذریعے اقبالؒ نے اہل خطہ¿ کشمیر کو سیاسی بیداری، خودشناسی اور خودداری جیسی اعلیٰ صفات سے روشناس کرانے کی سعی پیہم کی ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانان کشمیر میں جابرانہ ڈوگرہ عہد کے خلاف حق خودارادیت اور سیاسی بیداری کا جذبہ موجزن نظر آتا ہے اور اُن میں بیداری کی لہر پیدا ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی اس مختصر نظم میں علامہؒ نے کشمیریوں کے لئے رفعت واوج، عزت نفس، جذبہ حریت اور سعی مسلسل کا عظیم پیغام سمو دیا ہے جس کے لئے اہل خطہ¿ کشمیر آپ کے ممنون ہیں۔
ساقی نامہ کے چند اشعار نذرقارئین ہیں۔
”بریشم قبا خواجہ از محنت او
نصیب تنش جامہ¿ تار تارے
نہ در دیدہ¿ او فروغ نگاہے
نہ در سینہ¿ او دل بیقرارے
ازاں مے فشاں قطرہ¿ بر کشمیری
کہ خاکسترش آفریند شرارے“
اقبالؒ کشمیری نژاد تھے اس لئے نفسیاتی طور پر خطہ¿ کشمیر سے ان کی اُنسیت و قربت ہمیشہ رہی۔ اپنے آباﺅ اجداد کی سرزمین سے قر بت و محبت کا احساس ان کی متعدد نظموں میں نمایاں دیکھا جا سکتا ہے۔

مزیدخبریں