علامہ اقبال جن اصحاب کی بہت قدر کرتے تھے ان میں جسٹس میاں محمد شاہ دین ہمایوں کا نام گرامی بہت نمایاں ہے۔ جسٹس شاہ دین بہت اچھے شاعر بھی تھے ان کا ایک شعر زبان زدعام ہے اور ضرب المثل کی صورت اختیار کر چکا ہے
اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
مولانا عبدالمجید سالک لکھتے ہیں: ”جن بزرگوں نے مسلمانان ہند کی نشاة الثانیہ کے زمانے میں اپنے ذہن و فکر کو زمانہ حاضر کے تقاضوں سے وابستہ کرکے قوم میں نئی روح پھونکی اُنکی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ وہ مشرقی تہذیب و ثقافت سے مالامال تھے اور جدید رجحانات کے اخذ میں اپنے اخلاق و کردار کے پس منظر کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتے تھے۔ ان بزرگوں کی اسی خوبی کی وجہ سے مسلمانوں کے ہر طبقے میں ان کو مقبولیت حاصل ہوئی اور ترقی کا کام آسان ہو گیا۔ ان بزرگوں میں جسٹس میاں محمد شاہ دین کا نام بہت ممتاز ہے۔“ شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے ”بانگ درا“ میں اپنی نظم ”اے ہمایوں“ میں میاں صاحب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا ہے
اے ہمایوں! زندگی تیری سراپا سوز تھی
تیری چنگاری چراغ انجمن افروز تھی
اس سے نہ صرف ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال ان سے کس قدر آشنا تھے بلکہ یہ اس زمانے کی طرف اشارہ ہے جب علمی صحبتوں میں یہ سب لوگ اکٹھے ہوتے تھے
جسٹس شاہ دین آل انڈیا مسلم لیگ کے بانی رکن تھے۔ اس ضمن میں مسلمان رہنما¶ں کی مشاورت اور بحث میں میاں شاہ دین نے بھرپور حصہ لیا جو مسلمان قومیت کی ہندوستانی سیاست میں جگہ بنانے کےلئے لارڈ منٹو سے کی گئیں۔ یہ وفد 1906ءکو وائسرائے ہند سے شملہ میں ملا اور یہ ملاقات بعد میں منٹومارلے اصلاحات کا پیش خیمہ بنی۔ اس سیاسی کوشش کا پہلا انعام میاں شاہ دین کو پنجاب چیف کورٹ کا جج بننے کی صورت میں مسلمانوں کو حاصل ہوا جس کے بعد مسلمانوں کی قانونی قابلیت کو مغلیہ سلطنت کے خاتمے (1857ئ) کے بعد پہلی مرتبہ تسلیم کیا گیا۔دسمبر 1906ءمیں جب میاں شاہ دین کو پنجاب چیف کورٹ(لاہور ہائی کورٹ) کا جج مقرر کیا گیا‘ اُس وقت وہ ہندوستان بھر کی تمام چیف کورٹس اور ہائی کورٹس میں واحد مسلمان جج تھے۔
جسٹس شاہ دین کے صاحبزادے میاں بشیر احمد نے اُن کی یاد میں ”ہمایوں“ نام کے ایک ماہنامے کا اجراءکیا جو 35 سال تک باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ صحافت کے اساتذہ اور طالب علم جانتے ہیں کہ اُردو صحافتی اور ادبی تاریخ کے بڑے بڑے نام ”ہمایوں“ کے ذریعے منظرعام پر آئے۔ میاں بشیر احمد لکھتے ہیں‘ میرے والد جسٹس شاہ دین سے اقبال کے خاص تعلقات تھے۔ اقبال نے بھی بعض اشعار میں شاہ دین کا ذکر بڑی محبت سے کیا ہے۔ چنانچہ اس غزل کا جس کا مطلع ہے :
لا¶ں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے
بجلیاں بیتاب ہوں جس کے جلانے کے لیے
ایک اور غیر مطبوعہ شعر اس طرح ہے:
ترک کر دی تھی غزل خوانی مگر اقبال نے
یہ غزل لکھی ہمایوں کے سنانے کے لیے
میاں بشیر احمد ایک اور جگہ لکھتے ہیں
والد بزرگوار کے کاغذات میں ایک پرزہ نکلا جس کے ایک طرف ایک دعوت کی تقریب میں اقبال نے میز کی ایک طرف سے انہیں دو شعر لکھ کر بھیجے اور جواب میں والد نے اسی زمین میں شعر لکھا۔ دو دوستوں میں خوب نوک جھونک ہوئی۔ بعد میں حضرت علامہ سے کئی بار جو باتیں والد صاحب سے متعلق ہوئیں ان سے مجھے اندازہ ہوا کہ جن چند ہستیوں کی ان کے دل میں بہت قدر و منزلت تھی ان میں ایک والد بزرگوار بھی تھے۔