اقبال او ر عشق ِ رسول صلی اللہ علےہ وآلہ وبارک وسلم

(برائے اشاعت علامہ اقبال ڈے 9 نومبر 2016)
سےّدمحمد وجےہ السےما عرفانی چشتی ؒ

اللہ جل شانہ نے اقبال ؒ کو عشق کی کرےمی سے نوازا ہے ، اقبال کا عشق مہ وپروےن سے آگے نکلتا ہے ، وہ فرشتہ و حور کو صےد زبوں جانتا ہے ، وہ پنہائے ادراک سے بھی پرے جاتا ہے ۔ اقبال ؒ کا عشق اےک ابدی جذبہ ہے ، اےک سراپائے عمل ہے ، اےک سعی ِ پےہم ہے ، اےک لافانی اور بلند شے ہے ۔ اسی عشق ِ رسول مےں کونےن کی ہر نعمت ہے ۔ اس نے ملت کا درد محسوس کےا ، تو رب کے حضور سجدہ رےز ہوا ، جہاںیہ صدا آئی۔۔
شبے پےشِ خدا بگرےستم زار
مُسلماناں چراخوارند و زادند
ندا آمد نمی دانی کہ اےں قوم !
دِلے دارند و محبوبے نہ دارند
کہ مےں نے جب حق تعالیٰ کے سامنے مسلمانوں کی زبوں حالی کا رونا روےا تو اس نے کہا اس زبوں حالی کی اصل وجہ ےہ ہے کہ ان کے دل محبوب کی جلوہ گری سے خالی ہےں ۔ اب دےکھنا ےہ ہے کہ وہ محبوب کون ہے جس کے لئے فکر ِ اقبال سراپا دعوت ہے ، ےہ محبوب وہی ذات ہے جو اللہ کی محبت کا جمال ِبے ہمتا ہےں وہ نبی الانبےاءہےں محمد رسول اللہ
اقبال ؒ کے نزدےک حضور کی اسی محبت مےں جہان ِ عرش و فرش کی ہر بلندی ہے ، اسی آوازہ ¿ غےب کو اقبال ؒ نے ےوں پےش کےا
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تےرے ہےں
ےہ جہاں چےز ہے کےا لوح و قلم تےرے ہےں
اقبال ؒ مقام ِ رسالت کی بے مثال بلندےوں ، فےضان ِ رسالت کی ہمہ گےری ، تعلقِ نبوت کی گہرائی اور احسان و کرم کی وسعتوں کا شناسا ہے ، وہ مقام لولاک لما خلقت الافلاک کی تجلےاں دےکھے ہوئے ہے ۔ جبھی تو سرور ِ انبےائ کے باب مےں کہتا ہے ۔
ہو نہ ےہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن ِ دہر مےں کلےوں کا تبسم بھی نہ ہو
ےہ نہ ساقی ہو تو پھر مَے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو
بزم ِ تو حےد بھی دنےا مےں نہ ہو ، تم بھی نہ ہو
خےمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبض ِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
وہ حضور کو مرکز ِ حےات ، مرجع تکوےن ، باعث ِ وجود ، اور حاصل تخلےق جانتا ہے ، اقبالؒ جب اےمان کی بات کرتا ہے تو کہتا ہے :
می توانی مُنکرِ ےزداں شدن
مُنکرِ شان نبی نتواں شدن
ےعنی کچھ لوگ خدا کا انکار تو کر جاتے ہےں لےکن حضور سرور ِ انبےاء کی شان ِ بلند کا انکار ممکن ہی نہےں ۔اقبال ؒ کی فکر ِ رسا نے اس عشق کا بےان اور اس محبوب کے جمال کو ےوں واضح کےا ۔
قوت ِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر مےں اسم ِ محمد سے اجالا کر دے۔ وہ کہتا ہے کہ ےہ اسم محمد ہی ہے ، جس سے ہنگامہ ¿ حےات قائم ہے ، جس سے کائنات کے وجود کو ثبات ہے ، جس سے اےمان کو تنوےرےں ہےں جس سے زندگانی فضائے ہست و بود مےں ہے اور جس سے اسلام کا ےک رنگی اور ےک آہنگی کا تصور قائم ہے ، ےہ نام مبارک وہ ہے کہ :
دشت مےں ، دامن ِ کہسار مےں ، مےدان مےں ہے
بحر مےں ، موج کی آغوش مےں ، طوفان مےں ہے
چےن کے شہر ، مراکش کے بےابان مےں ہے
اور پوشےدہ مسلمان کے اےمان مےں ہے
چشم ِ اقوام ےہ نظارہ ابد تک دےکھے
رفعت ِ شان ِ ورفعنالک ذکرک دےکھے
اقبال ؒ تو اپنے اےمان کے لئے ذات ِ رسول اللہ ہی کو مرجع حمد قرار دےتا ہے اور اےک مشہور شعر مےں اےک لفظ کا تصرف کر کے برملا کہتا ہے !
حمد بے حد تر رسولِ پاک را
آں کہ اےماں دادِ مُشت ِ خاک را
وہ حضور صلی اللہکی بارگاہ مےں عرض گزار ہوتا ہے تو کہتا ہے !
اے مقام و منزلِ ہر راہرو
جذب تو اندر دل ہر راہرو
درجہانِ ذکر و فکر انس و جاں
تو صلوٰتِ صبح ، تو بانگِ اذاں
ذکر و فکر و علم و عرفانم توئی
کشتی¿ و درےاﺅ طوفانم توئی
ےعنی اے حبےب حق راہ ِ حق پر جو بھی شخص جس انداز سے بھی چلا اس کا منتہا ئے تمنا آپ ہی کی ذات بنی ، مخلوق کے ذکر و فکر مےں اللہ کا نام اور کائنات کا ہنگامہ حضور ہی کی ذات سے ہے ، مےرا ذکر ، مےری فکر ، مےرا علم اور مےرا ادراک سب کچھ آپ ہی سے ہے اس کا منتہا ےا رسول اللہآپ ہی ہےں ۔
اقبال ؒ انسانی کےفےات کے ارتقا کو جب شہوار ِ فکر کی زد مےںپاتا ہے تو مقام ِ منتہا پر بندہ مومن کو پاتا ہے
مومنے بالائے بربالا ترے
غےرتِ اُو برنتابد ہمسرے
اور جب ان عظمتوں کو تما م دےکھتا ہے تو وہاں اس ذات کو پاتا ہے ، جن کا نام ہے محمد کی ذات اقدس ہے ۔ےہ حضور صلی اللہ علےہ وآلہ وبارک وسلم ہی ہےں جن سے اقوام کی تقدےر اور ملت کا لائحہ کار مرتب ہوا ، عقل نے سارے راز حضور سے پائے اور عشق نے ساری کےفےتےں حضور ہی سے حاصل کےں ، ےہ وہ مقام ہے جہاں شہپر ِ جبرےل ؑ بے بس ہے ، جہاں حرف ِ راز بے نوا ہے ، جہاں جو ہر ادراک ناصبور ہے ، جہاں سارے احساسات تمام ہےں اور ےہی وہ فضا ہے جس سے آگے اقبال ؒ اپنے عالم ِ وجدان کے سفر مےں روح ِ لامکاں سے بھی ےہی آوازےں سنتا ہے اور کہتا ہے
ہر کجا بےنی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروےدآرزو
ےا ز نور مصطفےٰ اورا بہاست
ےا ہنوز اندر تلاش مصطفےٰ است
ےعنی زندگی جہاں کہےں جب کہےں اور جس طرح بھی ہے ، حضور ہی کے نور سے اُسے حصہ ملا ہے ےا ابھی حضور کی ذات اقدس کی جستجو مےں ہے۔ وہ اس حقےقت رازدان ہے کہ :اسی عشق ِ رسول مےں اےمان ہے ، ےہی امت کی وحدت کا راز ہے اور اسی مےں قوم کی تعمےر ہے ۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

ای پیپر دی نیشن