اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ کے جسٹس امیر ہانی مسلم نے این اے 110دھاندلی کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹ کو درست قرار دینے کا اختیار نادرا کو حاصل نہیں ہے، الیکشن میں ریٹرننگ افسر خواجہ آصف سے ملا ہوا تھا تو درخواست دے کر اسے طلب کیوں نہیں کیا گیا، یہ بھی سوال مصدقہ ووٹ ڈالے گئے وہ کس کو ملے، امیدوار کی بے ایمانی اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتی جب تک ریٹرننگ افسر کو بلاکر جرح نہ کی جائے، عثمان ڈار کے وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ این اے110میں 50ہزار ووٹ غیر مصدقہ تھے جبکہ خواجہ آصف صرف 20ہزار ووٹ سے جیتے ہیں، تمام پولنگ سٹیشن کے ووٹوں کی شناخت کرا ئی گئی ووٹ بیگ سے ایسی کاونٹر فائلز بھی نکلیں جن پر شناختی کارڈ نمبر کا اندراج غلط تھا، 1975ووٹز کا شناختی کارڈ نمبر غلط تھا ایسے لوگوں نے بھی ووٹ کاسٹ کیے جن کا نام ووٹر لسٹ میں نہیں تھا، ریٹرننگ افسر خواجہ آصف سے ملا ہوا تھا جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ اگر ریٹرننگ افسر ملا ہوا تھا تو درخواست دے کر طلب کیوں نہیں کیا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ التوا کی درخواستوں پر عثمان ڈار کو 3بار جرمانہ کیا گیا لیکن جرمانہ ادا نہیں کیا گیا جرمانہ ادا نہ کرنے پر آپ کا حق رہ جاتا ہے کہ آپ کا کیس سنا جائے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ قانون کے مطابق ضروری ہے کے آر او کو بلا کر وضاحت کا موقع دیا جائے کہ اس نے الیکشن میں بے ایمانی کی تھی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عثمان ڈار بھی جرح کیلئے عدالت میں پیش نہیں ہوئے ہیں، عدالت نے کیس کی سماعت آج (بدھ) تک ملتوی کر دی۔
این اے 110: ووٹ درست قرار دینے کا اختیار نادرا کو حاصل نہیں: سپریم کورٹ
Nov 09, 2016