عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اْن کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے معاشرے کو مثبت رخ سوچنے کی فکر دی ہے اور نوجوانوں کو انقلابی پیغام کی طرف ابھارا ہے۔ انھوں نے اپنی قوم کی رہنمائی کے لیے اپنے مستقبل کی قربانی دینے کو ترجیح دی، انقلابی شاعری کے ذریعے نوجوانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور خود بھی عملی طور پر تشکیل پاکستان کے مشن میں شریک ہوگئے۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے اس میں نوجوانوں کا کردار یقیناً بہت اہم ہے اور اقبال نے اپنے کردار سے بھی یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ انھوں نے غلامی کی زنجیروں کو اپنے نوجوانی کے دور میں توڑا اور توڑنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔ 9 نومبر 2017 یا یوم اقبال منانے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ آج ہم آزاد قوم کے افراد ہونے کے ناتے سے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کس حد تک متحرک ہیں اور نوجوان نسل کس حد تک سرگرم عمل ہے۔ یہی طرز فکر علامہ اقبال کا تہذیبی ورثہ ہے۔ ہم جب اپنے کردار و عمل پر تنقیدی نظر ڈالنے کی صلاحیت پیدا کرلیں گے تو یقیناً قدرت ہمیں آسانیاں عطاکرے گی اور ہم مشکلات پر قابو پانے کی صلاحیت حاصل کرسکیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ راہِ عمل کیا ہے؟ یہی وہ زاویہ نگاہِ ہے جو فکر اقبال کے نئے افق دیکھنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ آپ کی خدمت میں یہ سوال پھر دہراتا ہوں، وہ راہ عمل کیا ہے جس سے ہم عصر جدید کے تقاضوں کو نیا رنگ دے سکتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ آج کا پاکستانی نوجوان علامہ اقبال اور ان کی فکر سے واقف ہے یا 9 نومبر کو چھٹی کے دن کے طور پر مناتاہے۔ کیا پیغام اقبال ہمیں یہی درس دیتا ہے؟ ہمارے معاشرے کے بہترین نوجوانوں کی منزل دولت اور اسٹیٹس کا حصول ہے۔ اس منزل کا اخروی انجام جو بھی ہو، دنیوی انجام ایک گمنام موت اور ورثے میں چھوڑی ہوئی جائیداد؟ جب کہ اقبال کا راستہ یہ نہیں، اقبال نے نوجوانوں کو خدمت کی فکر سے آراستہ کیا ہے اور تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ’جہاں ہے تیرے لیے، تو نہیں جہاں کے لیے‘ کے پیرائے میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ انسان کو رب نے بہترین مخلوق قرار دیا ہے، یہ ہمارے لیے عظمت کی دلیل ہے، اس لیے اقبال نے کائنات کی تسخیر کا کام اپنے شاہین یعنی نوجوانوں کے سپرد کیا ہے۔مسلم نوجوانوں کی زندگی صرف یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ تعلیم اس لیے حاصل کریں کہ انھیں ملازمت مل جائے یا دولت کمائیں؟ بلکہ اقبال نے نوجوانوں کو ان کا ماضی یاد دلاتے ہوئے کہا ہے کہ تمہارے اسلاف نے اس دنیا کی رہنمائی کی ہے۔ اس پس منظر میں علامہ اقبال نے جب مسلمان نوجوانوں کے طرز عمل اور کردار کا جائزہ لیا، تو انھیں بے حد صدمہ ہوا، لیکن اقبال ایک باحوصلہ اور پرعزم انسان تھے۔ اپنے تعمیری مقاصد حاصل کرنے کے لیے انھوں نے دو طویل تعمیری نظمیں لکھیں جو شکوہ اور جواب شکوہ کے نام سے مشہور ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم وہ نظم ہے جو نوجوانان اسلام کو مخاطب کرکے لکھی گئی ہے۔ اقبال نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان نوجوان مغربی تہذیب کا لباس پہن چکے تھے اور اس کردار سے دور ہوگئے تھے جو اسلام کا سرمایہ ہے۔ اس تناظر میں اقبال نے نوجوانانِ اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں احساس دلایا ہے کہ وہ تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں اوراپنے کردار پر نظر ڈالیں۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے شکست خوردہ قوم کے تن مردہ میں زندگی کی روح پھونک دی اور نوجوانوں کو عمل پر آمادہ کیا۔ پاکستان خواب اقبال ہے، جس کی تعبیر آج کے نوجوانوں نے کرنی ہے۔ یقیناً پاکستانی نوجوانوں میں ایک عزم و حوصلہ موجود ہے لیکن انھیں تربیت اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ تعمیر پاکستان کے لیے نوجوانوں کو قلم اور کتاب سے رشتہ استوار کرنا ہوگا، علمی صلاحیتوں کو فروغ دیتے ہوئے غفلت اور لاپروائی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ یقیناً ہم اس معاشرے کی تعمیر کرسکیں گے، تعمیر پاکستان ہی ہماری منزل ہے، اس منزل تک رسائی ممکن ہے کیونکہ علامہ اقبال کے خواب کی سرزمین یعنی پاکستانی فضائوں میں عدل و انصاف کی بہار کی اساس فکر اقبال ہے، جو بزرگوں کے نقش قدم کی پیروی کرنا ہے۔
9 نومبر کی تاریخ ہر سال کے کیلینڈر پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ اس دن کی اہمیت کے بارے میں آج کا نوجوان اس سے ذیادہ نہیں جانتا کہ یہ ’’یومِ اقبال‘‘ ہے۔ اور ایک اقبال تاریخ میں تھے کہ جن کو نوجوانوں سے بے تحاشہ امیدیں وابستہ تھیں۔ فرمایا کہ:
قناعت نہ کر عالمِ رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کا م تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
یعنی نوجوان ہر قوم کا مستقبل ہیں۔ ان کو شاہین سے تشبیہ دینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نوجوانوں کو اپنی نگاہ اپنے مقصد پر رکھنی ہے۔ جیسے شاہین کی نگاہیں اس وقت تک اس کے شکار پر رہتی ہیں جب تک کہ وہ اْس کو پا نہیں لیتا۔شاہین کے عزائم بہت بلند ہوتے ہیں۔یہی عزائم اقبال نوجوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔یہ تھے علامہ اقبالؒ۔۔۔
اور ہم اقبال کو کتنا جانتے ہیں؟
شاید صرف اتنا کہ بچپن سے اسکول کی اسمبلی میں پڑھتے چلے آئے۔۔۔
لب پہ آتی ہے دْعا بن کہ تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اْجالا ہوجائے
افسوس تو اس بات کا ہے کہ نہ کبھی اس سے زیادہ جانا اور نہ جاننے کی کوشش کی۔ اتنا بھی اسکول کی حد تک ہے۔کالج اور یونیورسٹی تک پہنچتے پہنچتے تو اقبالصرف قومی شاعرہی رہ جاتے ہیں۔اقبال کی نظر میں نوجوان قوم کی اْمید اور یقین ہیں۔ انہیں کے دم سے ذندگی کی رونق ہے،عزت ہے اور امت کی بیداری ہے۔
ہم تو اتنے خوش نصیب ہیں کہ ہمارے پاس نوجوانوں کی بہترین طاقت و تعداد ہے۔ نوجوان ہماری قوت ہیں۔مگر افسوس۔۔۔ کہ آج کا نوجوان اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ غیر ملکی تقلید کو اپنانا چاہتا ہے۔ وہ اقبال کو نہیں ہالی وڈ کو جاننا چاہتا ہے۔
اور ایک دوسری جگہ ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں اور نوجوان کو اس کا ماضی یاد دلاتے ہیں
کبھی اے نو جواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا
اور کسی حد تک یہ ممکن بھی ہوتا جارہا ہے۔ نوجوان کی فقط ظاہر ہی نہیں ان کی تہذیب بھی تبدیل کی جارہی ہے،اْن سے ان کا نظریہ چھینا جارہا ہے، ان کی شناخت تبدیل کی جارہی ہے، انہیں راحت پسند و کاہل بنایا جارہا ہے، ان کی ذندگی کا مقصد صرف دنیاوی عیش و عشرت رہ گیا ہے۔ اگر وہ تعلیم بھی حاصل کرتا ہے تو صرف دنیا بچانے کے لئے، آخرت کے لئے نہیں۔اقبال نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ ہر لحاظ سے مکمل انسان بننے کی کوشش کریں اور اپنے آپ کو اْن اوصاف سے آراستہ کرلیں جو خود اْن کی نشونما اور ترقی کے لیے ضروری ہیں اور جو عظیم قوم کی تعمیر و تشکیل کے لیے معاون بن سکتی ہیں۔ اقبال کا مثالی نوجوان خود دار، تعلیم یافتہ، یقین محکم اور عمل پیہم کی خوبیوں کا حامل نوجوان ہے۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند