عُقا بی رُوح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اُس کو اپنی منزل آسمانوں میں
اقبال ؒنے دیگر شاعروں کی طرح روایتی شاعری کو نہیں اپنایا،عشق و معشوق کا قصہ پیش نہیں کیا،گل و بلبل کے افسانے نہیں لکھے،غم جاناں کی حکایت اور غم روزگار کی شکایت سے اپنا دامن بچایااور حالات کو پیش نظر رکھ کر پیغمبرانہ شاعری کی۔چونکہ شاعری کی زبان علامتوں، تشبیہوں اور استعاروں کی زبان ہوتی ہے اس لئے اقبالؒ نے بھی لوازمات سے کام لیا۔علامہ اقبالؒ کی شعری میں جن تصوارات کا تصور ہے ۔ان میں شاہین کا تصور ایک امتیازی حیثیت رکھتاہے۔مغرب کے بلند نظر اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے باوجود خود شناسی اور خوداعتمادی کا اقبال ؒکے نظام فکر پر گہرا اثر نظر آتا ہے۔علامہ اقبالؒ اسلامی فلسفے پر اس قدر عبور رکھتے تھے کہ ان کے اندازائے بیان سے مومن کا خدا سے تعلق واضح ہوتا تھا۔بیسویں صدی کے آغاز میں اقبال کی پہلی نظم ہمالیہ منظر عام پر آئی اورپانچ چھ برس تک متواتر ان کے ذوق حسن اور فطرت کے آیئنہ داررہی۔ یہ وہ دور تھا جب اُن کا دماغ تسخیر عالم کی تیاریوں میں مصروف تھا اور پھر ایک وقت آیا کے اقبالؒ نے عالم میں چھپے قانون فطرت کو پا لیا اور پھر آسمانوں کی بلندیوں اور ان میں پوشیدہ بلند پرواز ی کو نوجوانوں کے لیے الگ انداز سے پیش کیا۔شاہین اقبال کا پسندیدہ پرندہ ہے اور اقبال کے ہاں اس کی وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے لیے بلبل اور شیلے کے لیے سکائی لارک تھی کی تھی،بلکہ ایک لحاظ سے شاہین کی ان سے زیادہ بلند ہے کیونکہ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہیں جن سے اقبال کا گہرا تعلق ہے۔اقبالؒ کے ہاں شاہین مسلمان نوجوان کی علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے ۔
خودی شو خی تندی میں کبرو ناز نہیں
جو نازہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوار شاہاباز نہیں
اقبا ل ؒنے اپنی شاعری شاہین کی علامت ذریعے انسان کی عظمت کو اُجاگر کیا۔ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں ’’آدم کا کائنات کے تسلط سے آزاد کروانے اور اُن کی انفرادیت کو اُجا گر کرنے کی ایک دل آویز کاوش کے تحت اقبال ؒنے آدم کی عظمت کو مرد مومن اور شاہین جیسی علامات سے ظاہر کیا ہے‘‘۔علامہ اقبال ؒکے کلام میں شاہین کی علامت پر چند ناقدین ادب نے اعتراض کیے ہیں کے اقبالؒ نے شاہین کی علامت صرف قوت چیرہ دستی کے لیے استعمال کیا ہے۔یہ ان لوگوں کی کم نظری اور تعصب کے سواہ کچھ نہیں ہے علامہ اقبالؒ کا شاہین طاقتور ہے مگر وہ کمزور پرندوں کا کبھی شکار نہیں کرتا بلند خیالی،دُور بینی ِ، جفاکشی ،دلیری،خودداری اور خوداعتمادی کا پیکر ہے ۔یہ تمام اعداد اور صفات اسلامی ہیں۔
شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دم ہے اگر تُو تو نہیں خطرہ افتاد
اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ کی سب سے باعمل قوم کا تصور شاہین قوت،تیزی، وسعت نظر،دوربینی اور بلند پروازی کی خصوصیات پر محیط تھااور اس کے مادی نظریہ حیات کاصحیح ترجمان، لیکن جب اقبالؒ نے اسے اپنایا تواس کی مشرقی روحانیت اس کی تخلیق پر غالب آگئی اور اس نے پنے شاہین کو درویشی، قلندری اور خودداری و بے نیازی سے مزین کر دیا۔شاہین اقبالؒ کی سیرت ایک جھلک’’بال جبریل‘‘کی مشہور نظم شاہین میں نظرآتی ہے۔
کیا میں نے اس خاکداں سے کنارا
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ
بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھ کو
ازل سے ہے فطرت میری راہبانہ
اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ نو جوانوں میں بیداری اور حرکت و عمل پر مشتمل ہے بر صغیر کے لاکھوں مسلمانوں کو ایک اسلامی خطے کا تصور دینے والے عظیم فلسفی شاعر نے یہ جان لیاتھا کے نوجوان ہے آزادی کی سب سے بڑی قوت ہیں اور وہ ہمیشہ اپنی شاعری سے نوجوانوں کی اصلاح اور ذینی تربیت کرتے رہے ۔
جوانوں کو میری آہ سحر دے
اِن شاہین بچوں کو بال وپر دے
خُدایہ آرزو میری یہی ہے
میرا نُورِ بصیرت عام کردے
اقبال ؒنے شاہین کی پرواز کو بہت غور سے دیکھا ہے اور اپنی شاعری میں شاہین کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے شاہین کی علامت کے ذریعے مردِ مومن اور مردِ کامل کے اوصاف کو اُجاگرکیا ہے۔شاہین کی تشبیہ محض پرواز کے لیے نہیں ہیں بلکہ نوجوانوں کو مکارمِ پرواز کی نشاندہی کرنا مقصود ہے۔اقبال کہتے ہیں :
نہ تُو زمین کے لیے ہے نہ آسماںکے لیے ہے
جہاں ہے تیرے لیے تُو نہیں جہاں کے لیے ہے
اقبال صرف شاعر ہی نہیں بلکہ فلسفی بھی تھے اور قوم کے عظیم رہنما بھی تھے۔وہ قوم کی اصلاح کر کے اسے ایک عظیم قوم بنانا چاہتے تھے۔جس کے لئے انہوں نے اپنی شاعری کو ذریعہ بنایا ۔اقبال کی شاعری محض شاعری نہیں بلکہ ایک پیغام ہے۔ اقبال نوجوانوں سے کہتے ہیں کہ ’’جس قدر مشکل درپیش ہوانسان کو اسی قدر باہمت ہونا چاہیئے کیونکہ مشکلات ہی انسان میںمقابلہ کی قوت پیدا کرتی ہیں۔اچھے اعمال ہونے چاہیئے اور ان میں تسلسل ہونا چاہیئے۔انسان کی کوشش میں شوق اور لگن اس قدر بڑھتا جانا چاہیئے کہ وہ عشق کی شکل اختیار کر لے۔
اقبال نے اپنی شاعری سے ایک مردہ جسم میں زندگی کا خون دوڑایا۔انہوں نے اپنی شاعری کو انسان کی حقیقی زندگی اوراس کے مسائل سے ہمکنار کر کے تامل و تفکر کے عناصر سے ہم آہنگ کیا۔اقبال کی شاعری میں زندگی بخشنے کا سلیقہ بھی ہے۔
نغمہ کجا و من کجا،ساز سخن بہا نہ ایست
سوئے قطارکشم، ناقہ بے زام را