ڈاکٹر علامہ اقبال جمعہ ذیقعدہ 1294 ھ بمطابق 9 نومبر1877 ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا سلسلہ ونسب کشمیر کے اعلیٰ برہمن خاندان سے ملتا ہے۔آپکے والد کا نام شیخ نور محمد تھا جو ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ جن کا تصوف سے گہرا لگائو تھا اور اکثر اپنے خدا کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔ اسی نسبت علامہ اقبال کے خون میں خدا کا خوف اور عشق رسول ﷺ کے علاوہ اولیاء کرام کی محبت رچی بسی تھی۔۔علامہ اقبال کوپنجابی، عربی،انگریزی،اُردو،فارسی جیسی زبانوں پہ عبور حاصل تھا۔1991 ء کی بات ہے کہ فرزند اقبال جسٹس جاوید اقبال مرحوم ،تنویر ظہور کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’علامہ اقبال کو تنہا رہنا اچھا لگتا تھا مگر وہ محفل کے آدمی تھے جسکے بغیر وہ تنہا رہنا پسندنہیں کرتے تھے۔ وہ عربی، انگریزی، فارسی کے پروفیسر ضرور رہیں مگر وہ گھر میں اکثر اوقات ہر کسی سے پنجابی زبان میں بات کرنا پسند کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں صوفیاء کرام کی پنجابی شعری ترنم کیساتھ سننے کا بہت شوق تھا‘‘۔ آپ نے انگریزی،فارسی کے علاوہ شعبہ عربی میں بھی تدریسی فرائض سر انجام دئیے۔ آپ نے میونخ یونیورسٹی جا کر فلسفہ ایران مابعد طبعیات پر ایک عالمانہ اور تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1923 ء میں آپ کو ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔علامہ اقبال جہاں ایک فلسفی شاعر اور نقاد تھے وہیں اپنے دور کے ایک زبردست سیاسی مفکر بھی تھے۔اسی لیے بانی پاکستان قائداعظم جیسے ماہر سیاستدان نے ان کو عملی سیاستدان کہا۔1926 ء میں آپ پنجاب کونسل کے ممبر منتخب ہوئے، جسکے بعد آپ تا دم آخر مسلمانوں کے ملی مطالبات اور جداگانہ انتخابات کے حامی رہے۔ دسمبر 1930 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہوا جس کی صدارت بھی علامہ اقبال نے فرمائی۔ اُس وقت آپکے صدارتی کلمات کچھ یوں تھے کہ’’وہ خیالات کی وسعت وبلندی،لہجے کی صداقت، زبان کی دلفریبی اور مطالب سیاسی کی فراوانی کے اعتبار سے دستاویز ہے‘‘۔ حسن اتفاق دیکھیے یہی وہ تقریر تھی جس میں علامہ اقبال نے ایک الگ ریاست قائم کرنے کی تجویز پیش کی۔ آپ نے فرمایا’’مجھے یقین ہے کہ یہ اجتماع ان تمام مطالبات کی نہایت شدومد سے تائید کریگا جو اس قرار داد میں موجود ہیں ذاتی طور پر تو میں ان مطالبات سے بھی ایک قدم آگے بڑھنا چاہتا ہوں میری خواہش ہے کہ پنجاب ،صوبہ سرحد،صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کو ایک ہی ریاست میں ملا دیا جائے خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر حکومت خود اختیاری حاصل کرے یا باہر رہ کر، مجھے تو نظر آتا ہے کہ انہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو آخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی‘‘۔یہ وہ خواب تھا جسے علامہ اقبال کی آنکھوں نے دیکھا جس کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ اقبال نے اپنی چشم باطن سے ایک آزاد مسلم پاکستانی قوم کو اس کے ظہور سے کئی سال پہلے دیکھ لیا تھا لیکن یہ پیش گوئی کرنے والا شاعر قیام پاکستان سے نو سال قبل اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ علامہ اقبال نے قائداعظم کو 1937 ء میں ایک خط میں لکھا ’’موجودہ حالات میں بہتری کی واحد شکل یہ ہے کہ نسلی،دینی اور لسانی بنیادون پر ہندوستان کو تقسیم کر دیا جائے‘‘۔یہی وجہ ہے قائداعظم بڑے فخر سے یہ کہا کرتے تھے کہ’’اقبال میرا دوست تھا،راہبر تھا،فلسفی تھاُُ۔ قائداعظم کو اقبال کی خود اعتمادی پر یقین تھا وہ ہر معاملے میں ان سے مدد لیتے اور انہیں اپنا دست راست سمجھتے تھے قائد اعظم نے اپنے پیغام تعزیت میں بھی جاوید اقبال کو یوں لکھا ’’وہ میرے ایک دانش مند دوست اور راہنما تھے مسلم لیگ کے نازک ترین اوقات میں وہ ایک چٹان کی طرح کھڑے رہے اور کبھی انکے قدم نہیں ڈگمگائے‘‘۔ آپ کو قانون کے شعبے سے جوانی سے ہی لگائو اور دلچسپی تھی۔ آپ بحیثیت ایک ایماندار اور دیاندار شخص تھے آپ کوئی ایسا کیس نہ لیتے تھے جسمیں انہیں محسوس ہوتا کہ وہ اپنے موکل کی کوئی مدد نہیں کرسکتے ۔آپکی وفات 21 اپریل 1938 ء کو ہوئی ڈاکٹر عبدالقیوم بتاتے ہیں کہ اقبال کی وفات کے وقت فجر کی اذانیں ہو رہی تھیں ۔