شاعر مشرق اور آج کے حالات

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے 

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
آج امت مسلمہ کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے خلیج کی صورت حال دل و دماغ کو چھلنی کر رہی ہے وہ امت جس کی پہچان اخوت اور اتحاد تھی، دشمنوں نے گھات لگا کر مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے پاکستان جسے اسلام کا قلعہ سمجھا جاتا ہے یہاں بے چینی اور بے قراری ہر جگہ اپنا اثرا دکھا رہی ہے ۔ کسی طرف سے اتحاد ، اتفاق اور رواداری کے پھول اور اسکی خوشبو محسوس نہیں ہو رہی ۔ کیا اس طرح کی ریاست کا خواب اقبال نے دیکھا تھا؟ حضرت اقبالؒ کا احسان صرف اہل پاکستان پر نہیں یا ان کی عنایات کا فیضان برصغیر کے مسلمانوں تک ہی محدود نہیں علامہ کے احسان تلے پوری امت دبی ہوئی ہے آپ نے اپنی انقلاب آفریں شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں بیداری کی جو لہر پیدا کی اس کی ضرورت آج کی مسلم دنیا میں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔ 200 سال پہلے حضرت اقبالؒ نے سامراج کا مسلم دشمنی کا جو نقشہ پیش کیا وہی صورتحال آج مسلمانوں کو درپیش ہے۔ سامراجی طاقتیں مسلمانوں کے وسائل پر قابض ہونے کے لئے سازشوں کے تانے بانے بن رہے ہیں۔ کہیں تیل پر قابض ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے تو کہیں مسلم ریاستوں کو ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما کر دیا گیا ہے ۔ شام ، اردن تیونس اور قطر اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں اسلام اور اہل اسلام کو کمزور کرنے کے لئے‘ انہیں تنہا کرنے میں پس پردہ مصروف ہیں اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں ۔ کیا افغانستان‘ شام‘ مصر ‘ ایران‘ عراق کی موجودہ صورتحال نا انصافی اور نا اتفاقی کی دلیل نہیں؟ اس کے علاوہ اقبال نے جو علیحدہ اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا اسے بھی معرض وجود میں آئے ہوئے 70 برس بیت گئے ہیں۔ اقبالؒ نے جس مقصد کے لئے علیحدہ وطن کا خواب دیکھا تھا و مقاصد پورے ہو رہے ہیں یا نہیں ۔ اگر آج اقبالؒ زندہ ہوتے تو یہ دیکھ کر نہ صرف افسردہ ہوتے بلکہ ان کا دل خون کے آنسو ضرور روتا کہ جس اسلامی ریاست کا خواب اقبالؒ نے دیکھا تھا وہ تو ابھی پورا نہیں ہوا … کاش امت ایک ہو جائے اور پھر سے مسلمان سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ رب کریم نے مسلمانان برصغیر کو علامہ اقبال کی صورت میں ایک ایسا بے شاعر بے مثال عطا کیا جس نے اپنی شاعری اور فکر کی بدولت دنیا بھر کے مسلمانوں کو فلسفہ خودی سے روشناس کرایا اور انھیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اغیار کی چیرہ دستیوں کا مقابلہ کرنے کا درس دیا خاص کر نواجوان مسلمانوں کو شاہین کا لقب دے کر انھیں ان کے اصل مقصد سے روشناس کرایا۔ ؎
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
حضرت اقبال نے برصغیر کی منتشر مسلم قوم کو ایک ایسا مقصد عظیم عطا کیا جس کی بدولت انھیں ہندوئوں اور انگریزوں کی نسل در نسل غلامی سے نجات حاصل کر کے آزاد فضائوں میں سانس لینا نصیب ہوا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں جا بجا امت مسلمہ کے اتفاق و اتحاد پر زور دیا۔ علامہ اقبال ہندوئوں اور انگریزوں کے کردار سے بخوبی واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جب تک مسلمان بحیثیت ایک قوم اکٹھے اور متحد نہیں ہو جاتے وہ اپنی الگ پہچان اور وطن حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ وہ غلامی کی زندگی کو بد تر قرار دیتے تھے ۔ ؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیںپیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
حضرت اقبال کی فکر کو لے کر چلتے ہوئے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے لاہور کے منٹو پارک میں قرار داد پاکستان کو منظور کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کچھ ہی عرصہ بعد مسلمانان بر صغیر ایک الگ‘ خود مختار اسلامی ریاست لے کر دنیا کے نقشے پر ابھر آئے ۔ علامہ اقبال کی فکر اور سوچ محض ایک الگ وطن کے لئے نہیں تھی بلکہ وہ پورے عالم اسلام کے اتحاد اور اتفاق کیلئے تھی ۔ اگر ہم آج بھی علامہ اقبال کی اس سوچ اور فکر کے مطابق کام کریں اور اسی سمت میں قدم بڑھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم نہ صرف پاکستان میں اتفاق اور اتحاد قائم کر سکتے ہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں محبت اور بھائی چارے کی ایک ایسی فضا قائم کر سکتے ہیں جس کا درس ہمیں پیارے نبی ﷺ نے دیا‘ آئیے ہم عہد کریں کہ ہم اپنے پیارے وطن پاکستان کو حضرت علامہ اقبالؒ کے خواب کی اصل تصویر بنائیں گے ۔

ای پیپر دی نیشن