آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ نے ایران کا دورہ کیا ہے جس کے دو نکات نمایاں طور پر یوں سامنے آئے ہیں کہ پاک ا یران سرحد دوستی کی سرحد ہے، اور دونوںملک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔باتیں تو یہ دونوں اچھی ہیں اور ان کاا عادہ بھی ایک مستحسن امر ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس اعلامیے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی´۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ایران کی سرحد عبور کر کے بھارتی ر ا کادہشت گرد اور انڈین آرمی کاایک حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو،بلوچستان سے گرفتار ہوا اور اس نے یہ انکشاف کیا کہ وہ ایران میں چاہ بہار کے مقام پر ایک نیٹ ورک چلا رہا تھا جس کامقصد پاکستان میں دہشت گردی اور بلوچستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کرنا ہے۔، اس خوفناک انکشاف نے پاکستان کے کان کھڑے کئے اورا سے یہ سوچنا پڑا کہ کیا اس بھارتی نیٹ ورک کاا یرانی حکومت کو پتہ تھا اور اگر پتہ نہیں تھا تو ایرا ن نے اپنی انٹیلی جنس غفلت کے لئے کیا کسی کو سزا دی اور کسی کو کٹہرے میں بھی کھڑا کیا یا نہیں۔بہر حال پاکستان یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایرانی سرزمین اس کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ اسی لئے جنرل باجوہ کے اعلامیے میں یہ الفاط ڈالے گئے کہ دونوں ملک آئندہ ایک دوسرے کے خلاف اپنی سر زمین دہشت گردی کے لئے استعما ل نہیں ہونے دیںگے، یہ بھی ممکن ہے کہ ایرانی حکومت کو بھی پاکستان سے کوئی گلے شکوے ہوں۔ دونوں ملکوں کی سرحد بعض اوقات گرمی بھی دکھاتی رہی ہے ۔ ممکن ہے کہ ہمارے ہاں سے کوئی دہشت گرد جا کر کارروائیاں کرتے ہوں، دونوں صورتوںمیں اس امر کو یقینی بنانا وقت کی ضرورت تھی تاکہ ا ٓئندہ ایسا نہ ہونے پائے۔
ایران اور پاکستان کے مابین دوستی کے رشتوں کی تاریخ بڑی پرانی ہے، دونوں ملک ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں اور کئی باہمی معاہدوں میں منسلک ہیں ، ان میں ایک قابل ذکر ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان قدرتی گیس کی خریداری کا معاہدہ بھی ہو چکا ہے جس کے لئے ایران نے اپنی سرحد تک پائپ لائن بھی بچھا دی ہے۔اس معاہدے کا سب سے بڑا مخالف امریکہ بہادر ہے۔۔ یہ دشواری حائل نہ ہوتی تو یہ منصوبہ برسوں پہلے پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہوتا۔ اسی طرح پاکستان اپنی ضرورت کے لئے ایران سے بجلی بھی خرید سکتا ہے مگر عالمی شطرنج پر ایک گندہ کھیل جاری ہے اورپاک ایران اقتصادی قربت کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا جاتا۔
تاریخی ٰ طور پر پاک ایران روابط کو مضبوط اورمستحکم کرنے میں مذہبی، ثقافتی، علمی اور تہذیبی ورثے نے گہرا کردار ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی تو دور کی بات ہے، کبھی کشیدگی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ایران کی زبان فارسی ہے اور بر صغیر میں عدالتوں کی زبان بھی فارسی رہی اور ہمارے شعرا غالب ا ور اقبال نے فارسی میںایساکلام لکھا کہ ایرانی اس پر عش عش کر اٹھے، آج بھی آپ ایران کے سفارت خانے یا قونصل خانے جائیں تو وہاں سے آپ کو اقبال کی فارسی کلیات مطبوعہ ایرانی تحفے میں نذر کی جاتی ہے۔ایران کے فارسی ادیب ا ور شاعر ہماری پچھلی نسل تک قومی شخصیات شمار کی جاتی تھیں، شیخ سعدی کی حکایات تو بچپن میں ہی پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں، پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ایران میں مقدس زیارتوں کے لئے عازم سفر ہوتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کے عوام میں مغائرت کے کوئی آثار نہیں ملتے۔مگر کیا کیا جائے علاقائی اور عالمی عوامل کا جو پاک ایران دوستی میں کھنڈت ڈالنے کا باعث بنتے ہیں۔
مگر آفرین ہے دونوں ہمسایوں پر کہ ان میں سے کسی نے بیرونی انگیخت کا ذرہ بھر اثر قبول نہیں کیا۔ پاکستان کے لئے شاہ کاا یران بھی محبوب ملک تھا اور انقلاب اسلامی کو بھی پاکستانیوںنے دل و جاں سے خوش آمدید کہا۔ پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کے دفاع میں کلیدی کردا رادا کیا، ایرانی ہوئی اڈے پاک فضائیہ کے جہازوں کے استعمال کے لئے پیش کر دیئے گئے تھے۔
پاکستان نے بڑی حکمت سے کام لے کر اپنے آپ کو ان علاقائی تنازعات سے دور رکھا ہے جو برادر ملک ا یران کو درپیش ہیں۔یمن کا مسئلہ سعودی عرب کے لئے انتہائی سنگین تھا مگر پاکستان نے اپنی فوج کو یمن کے خلاف استعمال ہونے کے لئے نہیں بھیجا، اسی طرح پاکستان نے شام کی لڑائی سے ا پنے آپ کو دور رکھا ہے، بحر ین کے بادشاہ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کے دورے پر آئے، انہیں پاکستان سے فوجی امداد درکار تھی مگر پاکستان نے انتہائی حکمت اور نفاست سے پہلو بچا لیا ، پاکستان اگر عرب دوستوں کی امداد نہیں کر سکتا تو وہ ایران کو بھی نارض نہیں کر سکتا، یہی وہ باریک دھار ہے جس پر چلتے ہوئے پاکستان نے اپنی عزت بچا رکھی ہے ورنہ علاقے میں بڑی تباہی کو نہیں روکا جاسکتا تھا، پاکستان البتہ یہ کوشش ضرور کر رہا ہے کہ وہ ایران اور عالم عرب کے مابین ایک پل کا کام دے اور ان کے مابین غلط فہمیوں کو رفع کرنے کی کوشش کرے تاکہ کوئی تنازعہ ایک حد سے آگے نہ بڑھنے پائے۔ اس مقصد کے لئے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ متعدد دورے کئے۔سعودی عرب نے ایک دفاعی اتحاد تشکیل دیا ہے جس کی سربراہی کے لئے پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل کو سعودی عرب جانے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ اقدام پاکستان ا ور ایران کے مابین غلط فہمیوں کا باعث بن سکتا تھا مگر پاکستان نے محتاط رویہ اختیار کیاا ور ابھی تک ایران کی طرف سے اس پر کوئی بڑا عتراض وارد نہیں ہوا۔
اس وقت دونوںملکوںکو جو مسائل درپیش ہیں، ان پر غور وخوض کے لئے ہی جنرل باجوہ نے ایران کا سفر کیا ہے، اس سے قبل وہ سعودی عرب بھی گئے تھے اور اب وہ روس کے دورے پر جانے والے ہیں، اس شٹل ڈپلومیسی کا تعلق بھی علاقے میں امن کا قیام ہی ہو سکتا ہے۔
پاکستان ا ور ایران دونوںاحتیاط سے کام لے رہے ہیں، خدا کرے کہ ہم ہمیشہ بھائیوں کی طرح رہیں اور کوئی بیرونی طاقت ہمارے درمیان اختلافات نہ پیدا کر سکے۔