”نواز شریف نے عدالت‘ عوام اور پارلیمنٹ کو بے وقوف بنایا“

اسلام آباد (مطیع اﷲ جان) کمرہ عدالت میں داخل ہوا تو جج صاحب پہنچے نہیں تھے۔ پہلی صف میں بیٹھے سابق وزیراعظم نواز شریف ایک معروف انگریزی روزنامے کی ہیڈ لائن پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ اس شہ سرخی کا اردو میں مطلب تھا ”نواز شریف نے عدالت‘ عوام اور پارلیمنٹ کو بیوقوف بنایا۔ سپریم کورٹ“۔ کافی دیر تک اس ہیڈ لائن کو گھورتے رہنے کے بعد جب انہوں نے اوپر دیکھا تو میں موقع دیکھ کر قریب ہو لیا اور کہا یہ آج کی بڑی خبر ہے۔ اپنے تاثرات کو چھپاتے ہوئے میاں صاحب نے پوچھا‘ ”کیا یہ خبر درست ہے اور کیا یہی شہ سرخی بھی بننی چاہئے تھے؟“ میں نے جواب دیا جی خبر درست ہے اور پاکستان کی اہم ترین شخصیت کے بارے میں ہے تو شہ سرخی بھی یہی بنتی ہے اور ویسے بھی یہ ججوں کے الفاظ ہیں اخبار کے نہیں“۔ میاں صاحب الائچی کو دانتوں میں بھینچتحے ہوئے خاموش ہو گئے۔ فرد جرم سے دفعہ تین اے نکل جانے کے بعد نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر لگی فرد جرم میں باقاعدہ ترمیم کے لئے نواز شریف کو کٹہرے میں بلایا گیا۔ احتساب عدالت کے جج نے اپنے کمپیوٹر اور سامنے بکھری چند فائلوں کو ادھر ادھر کر کے کچھ دیر بعد سامنے کھڑے سابق وزیراعظم سے سرسری نظریں ملائی اور نئی فرد جرم کو دھیمی آواز میں پڑھا اور کہا آپ نے فرد جرم کے پہلے والے جواب میں جو کہا تھا اگر کچھ اضافہ کرنا چاہیں تو کر لیں۔ فرد جرم کے اس پرانے جواب کو پڑھ کر میاں صاحب نے ایڈووکیٹ خواجہ حارث کو اس میں تین نئے الفاظ شامل کرنے کے لئے کہا۔ فرد جرم اور اسکے جواب میں ترامیم کے بعد سابق وزیراعظم نے ایک بار پھر کاغذات پر اس جگہ دستخط کئے جس جگہ پر انگریزی میں لکھا تھا Accused یعنی ”ملزم“۔ تقریباً بیس منٹ تک کٹہرے میں کھڑے رہنے کے بعد نواز شریف واپس اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ بیٹھی مریم نواز مسلسل برقی تسبیح پر برق رفتاری سے ورد میں مصروف رہیں اور ان کے ساتھ بیٹھے پرویز رشید ساری صورتحال سے مریم نواز کو آگاہ کرتے رہے۔ کیپٹن صفدر بھی تیسری قطار میں پیچھے چند وزراءکے ساتھ محو گفتگو تھے۔ سابق وزیراعظم نے اپنی نااہلی کے خلاف نظرثانی درخواستوں کے تفصیلی فیصلے پر ایک ایسا الزام لگایا جس کی قانون میں کوئی سزا نہیں۔ نواز شریف نے کہا سپریم کورٹ کا فیصلہ بغض سے بھرا تھا‘ اس فیصلے سے ججوں نے بغض کا اظہار کیا ہے اور یہ ایک سیاہ باب ہے جو کالے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ نواز شریف نے اپنے خلاف فیصلے کو بغض قرار دے کر کچھ سوال اٹھائے ہیں جن کا جواب بہرحال مغز کے ساتھ دیا جا سکتا ہے بغض کے ساتھ نہیں۔ نواز شریف کے سیاسی مخالفین کی تقریروں اور عدالتی فیصلوں میں بہرحال فرق ہونا چاہئے خاص کر نظرثانی کے مرحلے پر جس طرح نئے شواہد اور نئے دلائل دینے کی اجازت نہیں ہوتی اسی طرح فیصلوں میں بھی ملزمان کے کردار اور شخصیت سے متعلق نئے نئے جملے کسنے پر پابندی ہونی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن