اسلام آباد (سہیل عبدالناصر/ نواز رضا) مستقبل قریب میں جی ایچ کیو کو اسلام آباد منتقل کرنے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ اس منصوبہ کیلئے وسائل میسر نہیں ہیں۔ آپریشن ضرب عضب میں ناکارہ ہونیوالے ہتھیاروں کی بحالی اور فورسز کے دیگر ہتھیاروں کی جدید کاری اس وقت پہلی ترجیح ہے اور اس ترجیح میں جی ایچ کیو شامل نہیں۔ ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت نے ذرائع ابلاغ کے چنیدہ نمائندوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کے دوران سلامتی و دفا ع کی صورتحال، افغانستان کے حالات، پاک امریکہ تعلقات ،پاک بھارت تعلقات و امکانات اور ان موضوعات سے جڑے متعدد کئی دیگر امور پر تفصیل سے تبادلہ خیالات کیا۔ خود غیررسمی گفتگو کے دوران انسداد دہشت گردی کیلئے پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن کے حالیہ دورہ پاکستان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے تحکمانہ لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کی لیکن ان پر واضح کر دیا گیا کہ پاکستان کی طرف سے جواب تھا کہ ہم نے بہت کچھ کیا۔ قربانیاں دیں۔آپ افغانستان کے اندر پیدا ہونے والے مسائل سے خود نمٹیں۔پاکستان کی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کی کوئی پناہ گا ہیں باقی نہیں ہیں۔ امرکہ کا مطالبہ ہے کہ حقانیوں کو ماریں۔ ہم نے کہا کہ ہم کسی کی پناہ گاہ قائم نہیں رہنے دے رہے۔ اور ان عناصر کو اپنی سرحدوں سے باہر دھکیل رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کراچی کے راستے افغانستان اور بھارت کے درمیان تجارت میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ہم افغانستان کو پانچواں صوبہ نہیں بلکہ ایک آزاد و خودمختار ملک سمجھتے ہیں اور اس کی سالمیت کا احترام کرتے ہیں لیکن امریکیوں کو بتا دیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی والے بھارت، افغانستان کے ذریعہ پاکستان کو نشانہ بناتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے کی خواہش کرنا بھی ایک مشکل کام ہے جس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کا بھارت کا رویہ خراب ہے۔ مودی کا رویہ دن بدن زیادہ سے زیادہ جنگجویانہ ہوتا جا رہا ہے جس میں اچھے تعلقات کے قیام کی خواہش شرمندہ تعبیر ہی رہے گی۔ ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء کیلئے پالیسی کے اعلان سے لگتا تھا کہ امریکہ پاکستان پر چڑھ دوڑے گا لیکن خواجہ آصف کے دورہ امریکہ اور سفارت کاری کی بدولت لگتا ہے وہ مرحلہ گزر گیا۔ امریکہ نے پالیسی تو نہیں بدلی لیکن ترمیم اور ردو بدل کا امکان دکھائی دیتا ہے۔ امریکیوں کو احساس ہو رہا ہے کہ پاکستان کو دھمکایا نہیں جا سکتا۔ شدت پسند تنظیوں کو قومی دھارے میں لانے کی حکمت عملی پر پائے جانے والے اختلافات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا مئوقف ہے کہ ان تنظمیوں کو سیاسی اعتبار سے نہیں بلکہ سماجی و معاشی طریقہ سے قومی دھارے میں شمال کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ آرمی چیف کے رواں دورہ ایران کا بڑا مقصد پاک یران بارڈر مینجمنٹ پر بات کرنا تھا۔ ایران ،پاکستان کا اہم پڑوسی ہے جس کے ساتھ ہم اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔