اقبالؒ اورگیسوئے اردو۔۔!

Nov 09, 2018

عدنان عالم

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ علامہ اقبالؒ کو سمجھنا ہر فرد بشر کا کام ہے اور پھر یہ بات کسی اقبال شناس سے پوشیدہ نہیں کہ اقبالؒ کی زندگی میں ان کی سیرت، شخصیت، شاعری اور گراں مایہ و تاریخ ساز خدمات کے حوالے سے جس قدر تحقیقی کام ان کی حیات میں ہوا، اس سے کئی گنا کام ان کی وفات سے لے کر اب تک جاری ہے۔ ایک امر یہ بھی مانع رہا کہ علامہ اقبال کے کام کی سیاسی نوعیت سے تو پورا فائدہ اٹھایاگیا لیکن ان کے کلام کے علمی وفکری پس منظر اور نصب العین کی طرف توجہ کم ہوئی۔ فکر اقبال کا علمی دائرہ بہت وسیع تھا، جولوگ محض یہ سمجھ لیتے ہیں کہ محض فارسی پڑھ لینے سے، خود فارسی کے بغیر بھی کوئی شخص تنقید اقبال کر سکتا ہے، وہ غلطی پر ہیں۔ اقبال کا کلام علوم اسلامیہ کا اشارہ ہے اور اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ علامہ خود قدم قدم پر علمی امور میں علمائے وقت سے طویل اور مسلسل مشاورت کرتے تھے۔ یہ بے علمی جس کا میں ذکر کر رہا ہوں انگریزی نظام تعلیم کی لازمی وراثت تھی۔ تعلیم یافتہ لوگ جتھے کی عصبیت میں آکر اسے تسلیم نہیں کرتے، مگر امر واقعہ ہے کہ انگریزی تعلیم مغربی علمی فضا تو کیا پیدا کرتی کہ ہر فضا اپنے لئے خاص سماجی احوال اور روایت کی طلبگار ہوتی ہے، اس نے اس روایت اور فضا کو بھی یکسر ختم کر دیا جس نے ملاّنظام الدین، شاہ اسماعیل شہید ، ابوالکلام ، سید سلمان ندوی اور سرسید کو جنم دیا!میں کہتا ہوں مطالعہ اقبال سچ مچ پورے پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ اقبالؒ نے مختلف زبانوں میں شاعری اور فلسفہ بیان کیا ہے۔جن میں سب سے اعلیٰ مقام شائد اردو زبان کو حاصل ہے، جس کے ذریعے تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان ہوئی۔علامہ اقبال نے فرمایا!’’میں جو اردو لکھتا ہوں وہ میری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے میں اسے چھوڑ نہیں سکتا۔ یہ شان و جلالت، رعب و دبدبہ کے اوصاف ہیں میری لسانی عصبیت میری مذہبی عصبیت سے کم نہیں‘‘اقبالؒ نے دیگر شاعروں کی طرح روایتی شاعری کو نہیں اپنایا، عشق و معشوق کا قصہ پیش نہیں کیا،گل و بلبل کے افسانے نہیں لکھے،غم جاناں کی حکایت اور غم روزگار کی شکایت سے اپنا دامن بچایا اور حالات کو پیش نظر رکھ کراردو زبان میں پیغمبرانہ شاعری کی۔چونکہ شاعری کی زبان علامتوں، تشبیہوں اور استعاروں کی زبان ہوتی ہے اس لئے اقبالؒ نے بھی لوازمات سے کام لیا۔اردو زبان کا لفظ’’خودی ‘‘کا مطلب ہے احساس نفس، معرفت حق اور تعین ذات، علامہ اقبالؒ کے اپنے الفاظ میں’’خودی ‘‘کا عرفان قرآن کے سوا اور کہیں نہیں۔ جب تک اقوام کی خودی ، قانون الٰہی کی پابند نہ ہو، امن عالم کی کوئی سبیل نہیں نکلتی، چنانچہ حضرت اقبال ؒکے نزدیک حدود ’’خودی‘‘ کے تعین کا نام شریعت اور شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں میں محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ حضرت اقبالؒ نے جس خوبصورتی سے اردو زبان کے لفظ’’ٖ خودی‘‘ کا استعمال اورتعین کیا ہے شائد کسی اور زبان میں ممکن نہ ہوتا۔یہاں تک کہ لفظ خودی پر تحقیق کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔یہ اردو زبان کا کمال ہے جس کے ایک لفظ نے شریعت سے طریقت تک کا راستہ دکھایا ہے۔اقبال ؒنے شاہین کی پرواز کو بہت غور سے دیکھا ہے اور اپنی شاعری میں شاہین کا جگہ جگہ ذکر کیا ہے شاہین کی علامت کے ذریعے مردِ مومن اور مردِ کامل کے اوصاف کو اُجاگرکیا ہے۔شاہین کی تشبیح محض پرواز کے لیے نہیں ہیں بلکہ نوجوانوں کو مکامِ پرواز کی نشاندہی کرنا مقصود ہے۔اس طرح اردو زبان کا لفظ ’’ شاہین‘‘ بھی اقبالؒ کی شاعری کا حسن بن گیا۔علامہ اقبال ؒ نے 1901میں انجمن حمایت اسلام کے ایک جلسہ میںپہلی بار جو نظم’’کوہ ہمالیہ سے خطاب‘‘ پڑھ کر سنائی وہ اردو زبان میں تھی اور اس میں انگریزی خیالات اور فارسی کی بندش تھی۔ اس کی خوبی یہ بھی تھی کہ اس میں وطن پرستی کی چاشنی بھی تھی۔اول اول جو نظمیں جلسہ عام میں پڑھی جاتی تھیں تحت اللفظ پڑھی جاتی تھی اور اس طرز میں بھی ایک لطف تھا، مگر بعض دوستوں نے ایک مرتبہ جلسہ عام میں حضرت اقبالؒ سے اصرار کیا کہ وہ نظم ترنم سے پڑھیں اور جب جلسہ عام میں علامہ اقبال کی نظم پڑھی جاتی تو دس دس ہزار آدمی ایک وقت میں جمع ہو جاتے۔علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز اردو زبان سے ہی ہوا، اور اردو سے لگائو نے دیگر زبانوں سے رغبت پیدا کر دی۔ خودی کا تصور اردو زبان میں نہ ہوتا تو شائد اہل علم اور فکر و دانش والے ، فلسفہ خودی سے محروم رہ جاتے۔اقبالؒ نہ صرف اردو کے بڑے شاعر بلکہ ادبیات ِ عالم کے بھی عظیم شاعر ہیں ۔ اردو ادب میں حالی،اکبر اور اقبال ؒ کو ملا کر جو ادبی حیثیت سامنے آتی ہے اس میں اقبالؒ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب اپنے دل و دماغ میں اردو کووہ حصہ دیں جس کی وہ مستحق اور محتاج ہے۔ خود انہوں نے غالب کی تعریف میں چند بند لکھے جن میں ایک شعر میں اردو کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچاہے
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
جس احساس کے ساتھ یہ شعر کہا گیا ہے، اس سے کام لے کر اب گیسوئے اردو کو سنوارنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں