ارشاداحمدارشد
برصغیرمیں1857ء سے1947ء تک کادورمسلمانوں کے لئے بہت ہی ابتلاوآزمائش کادورتھا۔مسلمان غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ،انتشاروخلفشاراورزبوں حالی کاشکارتھے۔ان کی عزت،عظمت،شان وشوکت اورہیبت قصہ پارینہ بن چکی تھی۔ماضی اگرچہ پرشکوہ تھالیکن حال اورمسقبل غیریقینی تھا۔ہرطرف غلامی کے اندھیرے تھے۔ان حالات میں علامہ اقبال کی شخصیت،سوچ اورفکرمسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنی۔علامہ اقبال نے مسلمانوں کومنزل دکھائی اوررہنمائی کی جبکہ اپنی شاعری ،مضامین اورتقریروں کے ذریعے انہیں حوصلہ بھی دیا۔علامہ اقبال نے مسلمانوں کوبتایاکہ اگرمسائل ومصائب سے چھٹکاراچاہتے ہو،آزادی وخودداری کی زندگی گزارناچاہتے ہو،غلامی کی زنجیریں توڑناچاہتے ہوتواس کاحل ایک الگ وطن کاقیام ہے۔چنانچہ آج جس مملکت خدادپاکستان میں ہم رہ رہے ہیں یہ شاعرمشرق علامہ محمداقبال کی سوچ وفکرکانتیجہ ہے۔یہ بات یقینی ہے کہ اگر1930ء کی دہائی میں علامہ اقبال مسلمانوں کے لئے الگ وطن کاتصورپیش نہ کرتے اوراس کے بعدقائدمحمدعلی جناح کوانگلینڈسے نہ بلاتے انہیں مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کے لئے آمادہ نہ کرتے توآج پاکستان دنیاکے نقشے پرموجودنہ ہوتا۔گویااس اعتبارسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال مفکرپاکستان ہی نہیں ۔۔۔۔مسلمانوں کے محسن بھی تھے۔شاعرمشرق علامہ محمداقبال نے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کاخواب دیکھااورخواب کوقائداعظم محمدعلی جناح نے اپنی پیہم جدوجہدکے ذریعے عملی جامہ پہنایا۔
یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کابچہ بچہ علامہ محمداقبال کے ساتھ دل وجان سے محبت کرتاہے شاعرمشرق اورمفکرپاکستان سے محبت کاعملی مظاہرہ دیکھناہوتوآیئے ہم آپ کولاہورکی بادشاہی مسجدمیں لئے چلتے ہیں۔
لاہورمیں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی بنائی ہوئی عالی شان،وسیع اورخوبصورت شاہی مسجدکے چارکونوں پرچارمینارایستادہ ہیں۔دومینارمسجدکی پچھلی جانب اوردومینارمسجد کی اگلی جانب واقع ہیں۔مسجدکی اگلی جانب میناروں کے سائے میں دوقبریں ہیں۔ ایک قبرحکیم الامت شاعرمشرق علامہ ڈاکٹر محمداقبال کی ہے اوردوسری قبرسردارسکندرحیات کی ہے۔مسجدکے بڑے داخلی دروازے سے باہرنکلیں تو علامہ محمداقبال کا مرقددائیں ہاتھ ہے اوربائیں ہاتھ سردارسکندرحیات کی قبر ہے۔سرسکندرحیات متحدہ پنجاب کے وزیراعظم،یونی نیسٹ پارٹی کے صدر اورمتحدہ ہندوستان کے مشہورو معروف،قدآور، سیاسی اورسماجی رہنما تھے۔کسی وقت متحدہ ہندوستان میں ان کاطوطی بولتاتھا۔بااختیار،صاحب اقتدار ،قوت وطاقت اوروسیع وعریض زمینوں کے مالک تھے۔بادشاہی مسجدکی دوسری جانب علامہ محمداقبال محوخواب ہیں درویش صفت،سادہ انسان،نہ دولت،نہ اقتدار،نہ اختیار۔کل کائنات جاویدمنزل کاایک کمرہ،کمرے میں ایک پلنگ جس پر وہ دن بھر لیٹے رہتے اور رات کو سوتے تھے۔ کھانا بھی یہیں کھاتے تھے۔ کل سازوسامان تین چار کرسیاں، ایک تپائی چندکتابوں پر مشتمل تھا۔ ملاقاتی آتے تو بے تکلفی سے یہیں بیٹھے رہتے۔21 اپریل کو صبح پانچ بجے اسی کمرے میں مشرق کے آفتاب ومہتاب نے داعی اجل کو لبیک کہا اورہمیشہ کے لئے زمین کی گودمیں جاسوئے۔ لیکن علامہ محمداقبال کی شہرت آج بھی چاروانگ عالم پھیلی ہوئی ہے،ان کی علم وحکمت اوردانائی کاآج بھی دنیامیں ڈنکابج رہاہے۔ علامہ اقبال کی وفات کو81برس بیت چکے ہیں اس کے باوجودآج بھی علامہ محمد اقبال کے مرقدپرچہل پہل ہے ،رونق ہے،روزانہ ہزاروں لوگ دعائے مغفرت کے لئے آتے ہیںجبکہ اس کے متصل اپنے وقت کے وزیراعظم سردارسکندرحیات کی قبرہے لیکن اس قبرپرسناٹاہے،ویرانی ہے اورخاموشی ہے۔سکندرحیات کی قبرپرکوئی بھی دعاکے لئے نہیں جاتا،کوئی پھول نہیں چڑھاتا،کوئی دعاکے لئے ہاتھ نہیں اٹھاتابلکہ آج کی نسل توسردارسکندرحیات کے نام سے بھی واقف نہیں ۔علامہ اقبال کی قبرپردعائے مغفرت کے لئے آنے والوں میں سے شائدہی کسی کومعلوم ہوکہ علامہ کی قبرکے متصل وقت کاوزیراعظم بھی خوابیدہ ہے۔یہ دراصل قوم کی محبت ہے علامہ اقبال کی شخصیت،علمیت ،صداقت اوردیانت سے اوران کوششوں کااعتراف واظہارہے جوعلامہ اقبال نے اس قوم کوانگریزکے پنجہ غلامی سے آزادکروانے کے لئے کی تھیں۔یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔کہتے ہیں کسی شخص کی عظمت اورمقبولیت عامہ کااندازہ اس کے جنازے کودیکھ کرکیاجاتاہے۔یہ بات حکیم الامت شاعرمشرق علامہ محمداقبال پربھی صادق آتی ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں برصغیرکے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کاجوخواب دیکھااگرچہ وہ اپنی زندگی میں یہ خواب شرمندہ تعبیرہوتے نہ دیکھ سکے تاہم ان کی وفات کے9سال بعدپاکستان منصہ شہودپرآگیا۔امرواقعی یہ ہے کہ پاکستان ہمارے لئے نعمت خداوندی ہے لیکن افسوس ہم پاکستان کووہ مملکت نہ بناسکے جس کاخواب علامہ اقبال نے دیکھاتھا۔علامہ اقبال ایک آزاد،خودمختار،خودداراسلامی ریاست چاہتے تھے۔اس لئے کہ اقبال اسلام کے بغیر مسلمان کی زندگی کا تصور بھی نہیں کرتے تھے،وہ مسلمانوں کی آزادی صرف نفاذِ اسلام کیلئے چاہتے تھے۔ انہوں نے فرمایا’’اگر ہندوستان میں مسلمانوںکا مقصدِ سیاست محض آزادی اوراقتصادی بہبود ہے اور حفاظتِ اسلام اس کا مقصد نہیں تو مسلمان اپنے مقاصد میں کبھی بھی کامیاب نہ ہو نگے۔ علامہ اقبال نے برصغیر میں ایک آزاد اسلامی ریاست کی تشکیل کا مطالبہ محض اس لئے کیا تھا کہ شریعت اسلامی کا نفاذ ہو سکے انہوں نے مسلمانوں پر واضح کیا کہ برصغیر میں ان کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی قومیت کے تصور کو ترک کرکے اسلامی قومیت کو اپنی شناخت بنائیں کیونکہ اسلام ہی انہیں موجودہ تباہ کن حالات سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
اسی پس منظرمیں اقبال کہتے ہیں
اپنی ملت پرقیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسول ہاشمی
حکیم الامت کا سب سے بڑا کارنامہ جس کی بنیاد پر پاکستان قائم ہوا ،یہ ہے کہ انہوں نے ہندی قومیت کے تصور کی مکمل نفی کی اور مسلمانوں میں اسلامی قومیت کا شعور پیدا کیا۔ اقبال جغرافیائی وطن پرستی کے سخت مخالف تھے کیونکہ یہ ان کے نزدیک وحدتِ ملی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔انہوں نے اسلام کو زندگی بخش قوت قرار دیتے ہوئے فرمایا ’’اسلام ایک زندہ قوت ہے جو ذہن ِ انسانی کونسل ووطن کی قیود سے آزاد کر سکتی ہے جس کا عقیدہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔اسلام بحیثیت مذہب کے دین وسیاست کا منبع ہے یہاں تک کہ ایک پہلو سے دوسرے پہلو کوجدا کرنا حقائق کا خون کرنے کے مترادف ہے۔اقبال کیلئے اسلام ہی مسلمان کی زندگی ہے ،کوئی مسلمان اسلام سے باہر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔ وہ کہتے ہیں’’اسلامی تصور ہمارا وہ ابدی گھر یا وطن ہے جس میں ہم اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔
علامہ اقبال اسلام کی تعلیمات پر محکم ایمان رکھتے تھے۔انہوں نے اپنی زندگی اسلام کی تفسیر وتوضیح کے لئے وقف کی تاکہ مسلمان عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اس کی لا متناہی برکات سے مستفید ہوں۔علامہ اقبال کے نزدیک اسلام ہی مسلمانوں کا بہترین مدافع اور محافظ ہے۔اسلام مسلمانوں سے اپنے تحفظ کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ انہیں تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ مسلمانوں کے ملک و ملت اور جان و مال کی حفاظت صرف اسلام سے وابستگی میں ہے۔چنانچہ اقبال کہتے ہیں’’ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا ہے ،یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ،مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی۔‘‘علامہ اقبال کے نزدیک اسلام اورسیاست ایک مجموعہ ہے۔اگردونوں میں سے ایک کوترک کردیاجائے تودوسرانامکمل اورادھوراہے۔