خالد یزدانی
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر
آج شاعر مشرق علامہ اقبال کا یوم ولادت عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے ،حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے پُراثر کلام سے برصغیرکے مسلمان کے دلوں کو جس طرح گرمایا اور حصول آزادی کے جذبے کو ابھارا اور بیداری کی لہر پیدا کرنے کے ساتھ انہوں نے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کا جو خواب دیکھا اور جانب منزل گامزن کرنے میں ان کی فکر نے جو نمایاں کردار ادا کیا اسی کا نتیجہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں میں وہ جوش جذبہ پیدا ہوا کہ آپ کی وفات کے بعد بابائے قوم قائداعظمؒ محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں انتہائی مختصر وقت میں قیام پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدل کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ آج سالہا سال گزر جانے کے باوجود ہم علامہ اقبالؒ کی عظمت کو سب مانتے ہیں پوری اردو شاعری میں ان کا حریف نہیں، جتنا معاشرتی شعور اقبال کا گہرا تھا اتنا کسی دوسرے شاعر کا نہیں تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ علامہ اقبال نے مشرقی اور مغرب دونوں کے علوم کی تحصیل کی تھی، علامہ اقبال نے جس دور میں آنکھ کھولی وہ فکر اور فلسفے کے عروج کا دور تھا ۔ علامہ اقبالؒ کے قلب و ذہن اسلام کے نور حقانیت سے منور تھے انہوں نے اسی روشنی میں علمی، تہذیبی اور فلسفیانہ تحریکوں اور سیاسی رجحانات کا عمیق نظری سے مطالعہ اور تجزیہ کیا۔ مسلمانوں کے ادبار کے اسباب معلوم کئے اور انہیں عصری حقیقتوں سے روشناس کرانے، انہیں مایوسی اور نا اُمیدی کے احسا س گر انبار سے نجات دلانے انہیں سنبھالنے، اپنے آپ کو پہچاننے، وقت کا ساتھ دینے اور درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے قابل بنانے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ہر سچے مفکر اور فلسفی کا ہمیشہ سے یہی کردار رہا ہے وہ زندگی کے احوال و مسائل کا تجزیہ کرتا ہے، گرہیں کھولتا اور عقدوں کو وا کرتا ہے، انسان کو عقل و شعور اور آگہی سے بہرہ ور کرتا ہے، اسے زندگی کو بامقصد انداز میں گزارنے کا ڈھب اور مشکلوں کو آسان کرنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی یہی کیا، انہوں نے ہمیں درس حیات دیا اور بتایا کہ ہم خود نگر اور خود دار ہوں گئے تو اپنی انفرادی اور اجتماعی پہچان کو برقرار رکھ سکیں گے، آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوسکیں گے اور اس نعمت کو محفوظ بھی رکھ سکیں گے۔
علامہ اقبال عمل و کردار، جہد و سعی، تعمیر و تخلیق کے نقیب تھے وہ جمود تعطل اور ہزیمت و پسپائی کو موت کے مترادف سمجھتے تھے ان کا مخاطب یوں تو پورا عالم انسانی تھا، تا ہم وہ نو جوانوں کو زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے اور ان کو مستقبل کا امین اور معمار سمجھتے تھے اس لئے زیادہ تر انہی کو دعوت فکر و عمل دیتے تھے انہیں ستاروں پر کمند ڈالنے کی تحریک کرتے اور ستاروں سے آگے کے جہانوں کی نوید دیتے تھے اور ان تک رسائی حاصل کرنے پر آمادہ کرتے ان کے دلوں کو سوز عشق و یقین سے گرماتے اور ان کو مہم جوئی کا اور مشکل سے مشکل مرحلوں کو سر کرنے کا درس دیتے۔ڈاکٹر صاحب 1900ء سے 1905ء تک بھاٹی دروازے کے اندر، 1908ء سے 1922ء تک انار کلی، 1922ء سے 1930ء تک میکلو روڈ، اور 1930ء سے 1938ء تک میو روڈ ( موجودہ اقبال روڈ) والے مکان میں مقیم رہے، صرف یہ آخری مکان جاوید منزل ان کی ذاتی ملکیت تھی، باقی سب کرائے کے تھے۔ ان تمام اقامت گاہوں میں ان سے ملنے جلنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ دنیا کا سب سے بڑا شاعرنہ تو قیمتی صوفوں پر بیٹھتا تھا نہ اس کا مکان دیدہ زیب فرنیچر سے آراستہ تھا، نہ ان کے یہاں قالین تھے بالکل عام اور سادہ، رہائش ہر قسم کے تکلف اور امیر انہ ٹھاٹ باٹ سے یکسر پاک، نہ تو کمروں اور دربانوں کی فوج، نہ ملاقات کے لئے رسمی پابندیاں ۔ ملاقاتیوں کے بارے میں ڈاکٹر صاحب غریب و امیر اور جاہل و تعلیم یافتہ کا کوئی امتیاز بھی روا ،نہ رکھتے تھے۔ڈاکٹر صاحب بس ضرورت کے مطابق کپڑے سلواتے تھے، فالتو جوڑے رکھنے اور نئے نئے ڈایزائن کے کپڑے خریدنے کا بھی انہیں شوق نہ تھا۔ جب کپڑوں کی ضرورت ہوتی تو علی بخش سے ذکر فرما دیتے۔ علی بخش ایک ان پڑھ اور پرانی وضع کا سیدھا سادہ ملازم تھا، وہ اپنی پسند کا کپڑا بازار سے جا کر خریدتا اور درزی کے سپرد کر آتا یا کبھی اس درزی سے ہی کہہ دیا جاتا جس کے پاس ان کے ناپ موجود تھے۔ درزی کپڑے تیار کر کے ڈاکٹر صاحب کو پہنچا دیتا، ڈاکٹر صاحب کسی کپڑے کی وضع قطع تراش اور سلائی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے اور نہ کسی قسم کی تنقید فرماتے اور اول تو دھوتی اور بنیان کی موجود گی میں کپڑے پہننے کی نوبت ہی کم آتی تھی، گھر پر شلوار صرف سردیوں میں پہنتے گرمی میں ہمیشہ پانچ گز کی کنی دار دھوتی کو دوہرا کر کے تہ بند کی طرح باندھ لیتے، جاڑوں میں قیمض اس پر دُھسہ یا گرم چادر۔
پروفیسر سلیم چشتی اس کے راوی ہیں کہ انہوں نے چودہ سال کی مدت میں صرف تین مرتبہ ڈاکٹر صاحب کو کوٹ پہنے دیکھا، پہلی مرتبہ 1926ء میں جب کونسل کے انتخاب کے سلسلہ میں انہوں نے بادل ناخواستہ انارکلی کے جلوس میں شرکت کی تھی۔ دوسری مرتبہ 1935ء میں جب وہ جاوید اقبال کی والدہ کی تدفین کے لئے قبرستان گئے تھے اور تیسری بار 1936ء میں انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسہ میں بادامی شوز بغیر پالش، شلوار، سفید قمیض، گہرون کا کوٹ اور لدھیانے کی نیلی سلائی دار سوتی پگڑی، یہ تھی لباس کی سج دھج اس شخصیت کی جس کی شہرت کا مشرق و مغرب میں ڈنکا بج رہا تھا اور کروڑوں قلوب جس کے احترام سے معمور تھے۔
زندگی کے آخری دور (1924ء تا 1938ئ) میں وہ لباس کی طرف سے اور بے پروا ہو گئے تھے اس کتاب کے آغاز کی تصویر میں ڈاکٹر صاحب جو اچکن پہنے نظر آتے ہیں اس سے یہ دلچسپ واقعہ منسوب ہے کہ حیدر آباد دکن کے وزیراعظم مہاراجہ سرکشن پر شاد نے شیروانیوں کے لئے جامہ دار کے دو ٹکڑے تحفہ کے طور پر ڈاکٹر صاحب کو دیے تھے ایک اچکن ڈاکٹر صاحب نے خود بنائی دوسرا ٹکرڑا شیخ اعجاز احمد کو دیا ، جو ان کے پاس اب تک محفوظ ہے۔
عنفوان شباب کے بعد ڈاکٹر صاحب کو عمدہ قسم کے کانوں اور زبان کے چٹخاروں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ ان کا دن رات میں ایک بار کھانے کا معمول ایک دو سال نہیں کم و بیش بیس پچیس سال قائم رہا۔ جب تک اندرون بھاٹی گیٹ ان کا قیام رہا رات کو عموماًدودھ پی لیا کرتے تھے بعد میں یہ معمول بھی منقطع ہو گیا تو انگور، آم اور خربوزے بڑے شوق سے کھاتے۔ جب حکیم نا بینا نے گلے کی تکلیف میں سردہ ان کے لئے تجویز کیا تو حکومت افغانستان کی جانب سے انہیں سردے بھیجے جاتے، اکبر الٰہ آبادی انہیں آم بھیجتے لیکن ان مرغوب پھول ں کے لئے خود کو ئی اہتمام نہ کیا جاتا تھا۔ حقہ ان کی زندگی کا بہترین ساتھی تھا کبھی بھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ وہ موجود ہوں اور حقہ ان کے پاس موجود نہ ہو۔ علی بخش کو بھی سب سے زیادہ ان کے حقہ ہی خیال رکھنا پڑتا۔ جب کسی دوست کے ہاں تشریف لے جاتے تو ان کی سب سے بڑی تواضح یہی سمجھی جاتی اور میزان سب سے پہلے اسی کی فکر کرتا۔
عام طور پر مشہور ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شہرت اور مقبولیت کے بہترین دور میں ان کی ذاتی آمدنی ایک ہزار روپے ماہانہ سے کبھی نہیں بڑھی تھی تو یہ بات واقعی درست ہے۔ لیکن ان کے مالی حالات کے پس منظر پر غور کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا آج کی دنیا میں انسان اتنے سخت اور بے لچک اصولوں پر قائم رہ سکتا ہے یہ محض سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ یہ واقعات اور حقائق ہیں اور علی بخش اس کے عینی شاہد! ڈاکٹر صاحب جس زمانے میں بیرسٹری کرتے تھے تو عام طور پر ان کے مقدمات قبول کرنے کی آخری تاریخ ہر مہینہ کی دس ہوتی تھی اس وقت ڈاکٹر صاحب کے ماہانہ اخراجات جس میں منشی طاہر الدین اور علی بخش کی تنخواہ اور مکان کا کرایہ سب کچھ شامل تھا سات تو روپے کے لگ بھگ تھے جب اتنی رقم کے معاوضہ کے مقدمات لینے سے انکار کر دیتے۔ بعض موکل اصرار کرتے کہ ہمارے مقدمہ کی وکالت آپ ہی کو کرنا ہو گی تو ڈاکٹر صاحب انہیں مشورے دیتے کہ آنے والے مہینہ کی شروع کی تاریخوں میں آنا۔محدود آمدنی کے باجود ڈاکٹر صاحب انکم ٹیکس ادا کرنے کے معاملے میں راست باز اور فرض شناس تھے انہیں اس بات کا شدید احساس تھا کہ انسان طمع اور حرص کے پھندے میں پھنس کر انسان ہی نہیں رہتا اور اس کے اندر بہت سی کمزوریوں پیدا ہو جاتی ہیں، لالچی لوگ تنگ نظر اور خود غرض بھی ہوتے ہیں پھر حرص و ہوس ایسی بیماری ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ باتیں انہیں لوگوں کے دل دماغ میں محفوظ رہ سکتی ہیں جن کو رسول کریمؐ کا یہ ارشاد یاد ہو کہ دنیا کی سب سے بڑی دولت قناعت ہے۔
دیانت و امانت اور قناعت و استغناء یہی وہ جوہر ہیں جو ایک دنیا دار انسان کو حق تعالٰی کے قریب لے جاتے ہیں۔ علامہ اقبال کی تاریخ ولادت 9 نومبر 1877ء ہے،جبکہ آپ 21 اپریل 1938ء کو جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کو بادشاہی مسجد لاہور کے باہر سپرد خاک کیا گیا ،آپ کے مرقد پر آپ کے یوم ولادت اور یوم وفات ہی نہیں بلکہ سارا سال عقیدت مند حاضری دے کر سلام عقیدت پیش کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں وہ اپنے کلام اور افکار کی بدولت آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں،اور کل بھی زندہ رہیں گے
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ ،نئے صبح وشام پیدا کر
شاعر مشرق علامہ اقبال ؒ
Nov 09, 2018