شاعر حسب حال باتیں کر کے چلے گئے ، اب دیکھئے ایک شعر کا مصرع کہ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ یہاں آپ آسمان کی جگہ واشنگٹن پڑھ لیں تو ساری بات سمجھ میں آ جائے گی۔ ادھر پاکستان کی نئی حکومت کے وزیر اعظم عمران خان نے چین کا دورہ مکمل کیا۔ اہم ترین چینی حکمرانوں سے ملاقاتیں کیں۔ ایم او یوز پر دستخط ثبت ہوئے۔ ادھرا ٓج خبر آ گئی ہے کہ امریکہ نے چاہ بہارپر مہربانیوں کی موسلا دھار بارش کر دی ہے۔ ایک طرف تو ا مریکہ نے ایران کو پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ مگر دوسری طرف وہ ایران کو بعض معاملات میں استثنیٰ بھی دے رہا ہے تاکہ ایران کی بندرگاہ چاہ بہار کو پاکستان کی بندرگاہ گوادر کی طرح بلکہ اس سے پہلے ترقی دے دی جائے، یہ بھی آپ کے علم میں ہونا چاہئے کہ چاہ بہار کی ترقی کا ٹھیکہ بھارت کے پاس ہے اور بھارت پر بھی امریکہ ہر طرح سے مہربان ہے۔ اسے بھی اجازت دی گئی ہے کہ چاہ بہار کی ترقی کے لئے اسے جو سازو سامان جہاں سے بھی منگوانا ہے۔ اسکے لئے اسے پوری ا ٓزادی حاصل ہو گی۔ بھارت کے پاس ایک ٹھیکہ اور بھی ہے کہ وہ ریلوے کے ذریعے اس بندرگاہ کو افغانستان سے ملائے تاکہ بھارتی سامان چاہ بہار سے افغانستان پہنچایا جا سکے۔ اس وقت بھارت کو پاکستان کے راستے افغانستان تک ٹرانزٹ روٹ میسر نہیں ہے اورا سکی وجہ ایک ہی ہے کہ کیا پتہ بھارتی ٹرکوں میں افغانستان میں اسلحہ پہنچایا جا رہا ہے یا پھل اور سبزیاں۔ افغانستان کے اندر بھارت کو پہلے ہی بے پناہ اثر و رسوخ حاصل ہے اور اس کے پاس ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکے ہیں جن کی سیکورٹی کے بہانے وہ اپنی دہشت گرد تنظم را کے ایجنٹوں کا جال افغانستان میں پھیلا رہا ہے۔ را کے دہشت گردوں کا ایک نیٹ ورک چاہ بہار سے بھی کنٹرول کیا جا رہا ہے جس کے ایک ایجنٹ کلبھوشن یادیو بلوچستان میں داخلے کے وقت پکڑے گئے۔وہ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر ہیں اور ان کا عہدہ بری فوج کے کرنل کے برابر ہے۔ کل بھوشن نے تسلیم کیا ہے کہ وہ چاہ بہار میں دہشت گردوں کو تربیت دیتا ہے اور انہیں تخریب کاری کے لئے بلوچستان میں داخل کرتا ہے۔ یہ ٹریننگ ویسی ہی ہے جیسے ستر اکہتر میں بھارت نے مکتی باہنی کو دی تھی اورا سے پاکستانی فوج سے ٹکرا دیا تھا۔ اور پھر موقع ملنے پر خود بھارتی فوج نے جارحیت کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کر دیا تھا،۔ موجودہ بھارتی وزیر اعظم مودی نے تسلیم کیا ہے کہ اکہتر میں ہر بھارتی کی خواہش تھی کہ بنگلہ دیش بنے اور پاکستان دو لخت ہو۔ اب یہی مودی صاحب فرماتے ہیں کہ جس طرح اکہتر میں بنگلہ دیش کے عوام کو ان کے حقوق دلوائے گئے تھے۔ آج اسی طرح بھارت کی کوشش ہو گی کہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دلوائے جائیں۔ گویا بھارت نے اپنے نئے ایجنڈے کو و اضح کر دیا ہے اورا س کے لئے اس نے افغان سر زمین کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے ایران کی سرزمین بھی میسرا ٓ گئی ہے اور وہ چاہ بہار کی بندرگاہ کو توسیع دینے کے منصوبے کی آڑ میںدہشت گردی ا ور تخریب کاری کا نیٹ ورک منظم کر رہا ہے۔ اس مذموم منصوبے میں اسے امریکہ کی شہہ بھی پوری طرح حاصل ہے جس نے ویسے تو ایران کو اقتصادی پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے مگر چاہ بہار کی بندرگاہ اور اسے افغانستان سے ریلوے کے ذریعے مربوط کرنے کے لئے اپنی پابندیوں کو نرم کر دیا ہے۔ ایران کے ساتھ امریکی رویئے کے دہرے معیار کی کئی مثالیں اور بھی ہیں۔امریکہ نے ایرانی خام تیل کی خرید کے لئے کئی ملکوں کو اجازت دے دی ہے۔ ان میں بھارت،چین، اٹلی،یونان، جاپان، جنوبی کوریا ، تائیوان اور ترکی شامل ہیں۔ اس طرح ظاہر یہ ہوتا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیاں محض دکھاوے کی حد تک ہیں یا کم از کم پاکستان اور چین کو جن کاموں سے نقصان پہنچ سکتا ہے،وہاں امریکہ نے اپنی آنکھیں یا تو بند کر لی ہیں یا جان بوجھ کر ایران اور بھارت کے لئے خصوصی مراعات کے دروازے کھول دیئے ہیں۔یہاں ایران کو بھی سوچنا چاہئے کہ پاکستان تواس کی خاطر یمن اور شام کے جھگڑے میں مداخلت سے باز رہنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ تو ایران کو بھی ایسی سرگرمیوں کا حصہ نہیں بننا چاہئے جو پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو فائدہ پہنچا سکتی ہوں۔ ابھی تک یہ قضیہ حل نہیں ہو سکا کہ کل بھوشن ایک مسلمان کے نام سے پاسپورٹ پر ایران کا سفر کیسے کرتا رہا اور ایرانی انٹیلی جنس ا سکی حرکات کا نوٹس کیوں نہیں لے سکی۔ پاک ایران سرحد پر بھی کئی برسوں سے حالات سنگین ہیں،یہان دونوں ملکوں کے سرحدی محافظوں کے مابین جھڑہیں ایک معمول بن گئی ہیں۔ اور تازہ تریں خبر یہ ہے کہ پاک ایران سرحد پر نصب گیٹ کئی ہفتوں سے بند پڑا ہے جس کی وجہ سے زائرین اور تاجروں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ موجودہ حکومت کی تشکیل سے قبل ہی پاکستان تشریف لائے تھے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ حالات کومعمول پر لانے میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ یہ کوششیں بارا ٓور ثابت ہوں۔ ایران ہمارا ہمسایہ ہے اور ہم مذہبی اور ثقافتی ورثوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ برصغیر میں برسوں تک فارسی زبان کو سرکار، دربار اور عدالتوں میں استعمال کیا جاتا رہا، ایرانی قو م اقبال لاہوری کی فریفتہ ہے اور ہم سعدی، حافظ اور عمر خیام کے دلدادہ ہیں۔ہمار جغرافیہ ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم رخنہ اندازی کا شکار نہ ہوں ۔مگر بھارت اور امریکہ تو شرارت سے باز نہیں آتے۔ ان کی سازشوں کو سمجھنا ایران کے لئے مشکل کام نہیں ہونا چاہئے۔ جہاں تک چاہ بہار کی بندر گاہ کا تعلق ہے تو یہ گوادر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ گوادر گہرے پانی کی بندر گاہ ہے اور خشکی کے راستے چین سے جڑی ہوئی ہے۔ گوادر کی ترقی سے ایران کو کوئی نقصان پہنچنے کاا حتمال نہیں، ویسے بھی متبادل روٹ کے طور پر چین نے ایران کی بندر عباس کو استعمال کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ چین صرف سی پیک تک محدود نہیں ۔ وہ تو ون بیلٹ ون روڈ کے ذریعے،۔ ایشیا، افریقہ اور یورپ کو کئی راستوں سے ملانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جس کے سامنے لا محالہ امریکہ ایک دیوار بنا ہوا ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان کو غیر معمولی طور چوکسی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔ سی پیک یقینی طور پر پاکستان کے لئے گیم چینجر ہے۔ نئی حکومت نے واضح کیا ہے کہ جاری منصوبوں کو مکمل کیا جائے گا۔اس طرح کم از کم سابقہ اور موجودہ حکومت کے مابین ایک وجہ نزاع ختم ہو جانی چاہئے کیونکہ سی پیک کسی ایک پارٹی یا کسی ایک صوبے کامنصوبہ نہیں، یہ پورے پاکستان کی تقدیر بدلنے کا پلان ہے۔ ا سلئے اس پر قومی اتفاق رائے قائم رہنا چاہئے اور کل کے کالم میں میںنے اومان کی بندرگاہ دکم میں چین کی جس براہ راست سرمایہ کاری کا ذکر کیا ہے۔ اس کے پیش نظر ہمیں چین سے بات کر کے اسے قائل کرنا چایئے کہ وہ بھی ہمیں قرضے سے نجات دے ا ور اسے سرمایہ کاری میںبدلے کیونکہ سی پیک سے جس ملک کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچنا ہے وہ چین ہے تو ا سکے لئے ہمارے سر پہ قرضوں کا بوجھ کیوں لادا جائے۔ یہ بات ہمارے قومی مفاد میں ہے کہ ہم چین کے باسٹھ ارب کے قرضے کو براہ راست سرمایہ کاری کی شکل دلوائیں۔ گوادر کی بندرگاہ سے بھی پہلے ننانوے برس تک چین ہی کو فائدہ پہنچنا ہے ۔اس لئے موجودہ حکومت اگر چین کو ان معاملات پر نظر ثانی پر آمادہ کر لے تو یہ ا سکی زبر دست کامیابی ہو گی۔