سینٹ : وزراءکی غیر حاضری پر اپوزیشن کا واک آﺅٹ : وزیراعظم کو پیغام دیں کارروائی کو سنجیدہ لیا جائے : چیئرمین

اسلام آباد (نیوز رپورٹر‘صباح نیوز، اے پی پی، آئی این پی) ایوان بالا میں اپوزیشن نے وفاقی وزراءکی عدم حاضری پر احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آﺅٹ کردیا۔ ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت شروع ہوا تو اپوزیشن ارکان نے وفاقی وزراءکی عدم حاضری پر احتجاج کیا، جس کا چیئرمین سینٹ نے بھی نوٹس لیا۔ تحریک انصاف کے قائد ایوان شبلی فراز نے ایوان بالا کو بتایا وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس جاری ہے اور وزراءاجلاس میں شریک ہیں۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے شبلی فراز کو ہدایت کی وزیراعظم کو پیغام دیں سینٹ کی کارروائی کو سنجیدہ لیا جائے اور فوری طور پر کابینہ اجلاس سے وزرا کو سینٹ اجلاس میں بھیجا جائے۔ ساتھ ہی چیئرمین نے سینیٹر نعمان وزیر، شیخ عتیق اور قائد ایوان کو ہدایت کی اپوزیشن ارکان کو منا کر ایوان میں لایا جائے۔ بائیکاٹ سے قبل سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا وزیراعظم نے کہا تھا قرضے لینے پڑے تو خودکشی کرلیں گے۔ میں وزیراعظم کو ان کا بیان یاد دلانا چاہتا ہوں۔ وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی نے کہا نئے پاکستان میں گولیاں اور لاٹھیاں چلانا حکومتی وطیرہ نہیں کسی بھی مہذب قوم کے لئے قومی سلامتی اور امن اہم ہے۔ عدالتی حکم پر عمل درآمد حکومت کی ذمہ داری ہے، قانون ہاتھ میں لینے والوں کو نشان عبرت بنائیںگے، ہم نمبر بڑھانے کے لئے گرفتاریاں نہیں کررہے، اپوزیشن نے پہلے دن تعاون کی بات کی دوسرے دن ملنا گوارا نہیں کیا، توہین آمیز خاکوں پر اپوزیشن نے حکومتی اقدامات کی تعریف کی۔ کلبھوشن کو سزا دلوانے کے لئے ملٹری کورٹس کا سہارا لیا گیا، کسی بھی مہذب قوم کے لئے قومی سلامتی اور امن اہم ہے۔ قومی سلامتی اور امن نہ ہو تو جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ گزشتہ دنوں احتجاج کے موقع پر تمام سٹیک ہولڈرز ایک پیج پر تھے۔ نئے پاکستان میں گولیاں اور لاٹھیاں چلانا حکومتی وطیرہ نہیں۔ عدالتی حکم پر عمل درآمد حکومت کی ذمہ داری ہے، قانون ہاتھ میں لینے والوں کو نشان عبرت بنائیںگے۔ کچھ سیاسی جماعتوںکے ورکرز نے جلاﺅ گھیراﺅ کیا، ہم پاکستانیوںکو گلے لگائیں گے گولی نہیں ماریں گے۔ ٹی ایل پی والوں کے معاملات صحیح رکھنے کے لئے میٹنگ ہوئی جو قانون توڑے گا اس کے خلاف مثالی کارروائی کی جائے گی۔ جو ایوان میں بولتے ہیں تعاون کریں گے ان کے کارکنوں نے باہر ہنگامہ آرائی کرائی۔ پارلیمانی سیاسی جماعتوں نے دھرنا دینے والوں کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے ملک کا نقصان نہیں کرنا چاہئے۔ قانون توڑنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہوگی، جو قانون توڑے گا اور ریاست کی عمل داری کو چیلنج کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی چاہے وہ لوگ کابینہ یا پارلیمنٹ کے ارکان ہی کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے کہا قانون بنانے والے تو موجود ہیں، عدالتی نظام میں سقم ہو تو فوجی عدالتیں ہی قائم کرنا پڑتی ہیں۔ ہم نے تحریک لبیک کے ساتھ پرامن مذاکرات کئے اور انہوں نے معذرت بھی کی۔ وزیراعظم اور متعلقہ فریقین کا یہ موقف تھا طاقت کا استعمال نہ ہو۔ پتوکی پنجاب اور رشکئی انٹرچینج میں ہونے والے واقعات میں بعض ایسی سیاسی جماعتوں کے کارکن بھی ملوث تھے جو ہمیں ایوان میں مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتی تھیں۔ انہوں نے کہا قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کو ہم مثال بنائیں گے۔ تمام ریکارڈ لیا جا چکا ہے، گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ خدانخواستہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرلیا گیا تو اس سے ریاست کا ہی نقصان ہوگا۔ ہمیں اب درست اور غلط کے درمیان ایک واضح لائن کھینچنا ہوگی۔ ایوان بالا میں قرضوں کی صورتحال، خارجہ پالیسی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر معاملات پر بحث آئندہ اجلاس میں بھی جاری رہے گی۔ اجلاس کے دوران قائد حزب اختلاف راجہ ظفر الحق نے کہا ان امور پر بحث سمیٹنے کی بجائے جاری رہنی چاہئے اور آئندہ اجلاس تک اسے جاری رکھا جائے جس سے چیئرمین نے بھی اتفاق کیا۔ چیئرمین سینٹ نے کہا ایوان بالا کا آئندہ اجلاس (آج) جمعہ سے شروع ہو سکتا ہے۔ اہم امور پر بحث آئندہ اجلاس میں بھی جاری رہے گی۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی نے کہا آئین سازی میں ملک کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا حصہ ہے۔ ریاست میں پارلیمنٹ کے ساتھ عدلیہ اور افواج پاکستان کا بھی بنیادی کردار ہے۔ انہوں نے کہا آئین سازی میں تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا جن میں قانون اور دیگر شعبوں کے ماہرین بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا آسیہ بی بی کیس میں سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان نے فیصلہ دیا اور ریاست کی عمل داری قائم کرنے میں عدلیہ کا اہم کردار ہے۔اپوزیشن ارکان نے حکومت سے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تاریخ میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جتنی اس حکومت نے کی، سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا وزیراعظم اعلان کرچکے ہیں کشکول توڑیں گے اور کسی ملک سے قرضہ نہیں لیں گے، وزیراعظم نے کہا قرضے نہیں لیں گے خودکشی کرلیں گے۔ انہوں نے اپنے اعلان کی نفی کی ہے۔ اس ایوان کی عزت کی پامالی ہورہی ہے۔ وزراءٹائم پر نہیں آتے یہ شہنشاہ بنے ہوئے ہیں۔ ایوب دور میں قرضے لینے کی روایت ڈالی گئی کشکول کا رواج مارشل دور میں رکھا گیا۔ ہم نے پہلے دن سے ہی کہا ہے یہ حکومت دھاندلی زدہ ہے ہم اسے نہیں مانتے۔ یہ عوام کے ووٹوں سے نہیں آئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گوادر کو قصبہ کہا ،گوادر قصبہ نہیں اس دنیا کا جنت کا ٹکڑا ہے۔ وسائل ہمارے ہیں لیکن ہم ان سے محروم ہیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا وزیراعظم نے سعودی عرب کے دو دورے کئے الیکشن جیتنے کے بعد وزیراعظم نے کہا پہلے حکمران مانگنے کے لئے جایا کرتے تھے حکمران مانگنے جاتا ہے تو لوگوں کے سر جھک جاتے ہیں۔ مجھے یقین تھا وزیراعظم اپنی بات پر قائم رہیں گے۔ انہوں نے کہا وزیر اعظم کے سعودی عرب کے پہلے دورے میں سعودی عرب نے کیا شرائط رکھی تھیں وہ ایوان کو بتائی جائیں۔ نواز شریف حکومت میں چین کے صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا جب نواز شریف چین گئے تو 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو بڑھا کر 56ارب ڈالر تک کردیا گیا ہم قرضہ مانگنے نہیں گئے تھے۔ تحریک انصاف والے کہتے تھے سی پیک کے منصوبے مہنگے ہیں اور ان میں کرپشن ہوئی ہے لیکن اب جو مشترکہ اعلامیہ آیا ہے اس میں کہا گیا ہے یہ بجلی کے منصوبے سب سے بہتر اور سستے لگے ہیں اور ان میں کوئی کرپشن نہیں ہوئی۔ حکومت نے آئی ایم ایف جانے کے شوق میں بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھائی ہیں یہ غریب سے کس چیز کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔حکومت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لے یہ وقت سے پہلے بات کرلیتے ہیں اور پھر کام نہیں کرسکتے۔ سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا تیس ہزار ارب کا قرضہ کہاں خرچ ہوا، مارشل لائی حکومتوں نے یہ پیسہ غیر ترقیاتی کاموں میں خرچ کئے۔ قرضے داخلہ اور خارجہ کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سعودی عرب کی نہ امداد ہے نہ قرضہ ہے ،یہ سودا بازی ہوئی ہے۔ سودا بازی ملک کو معاشی طور پر مفلوج کرتی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی عالمی استعماری قوتوں کے تابع رہی ہے۔ ہم ایک مزدور کی طرح خارجہ پالیسی کو چلا رہے ہیں۔ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو نے کہا تحریک انصاف والے تین سال تک احتجاج کرتے رہے ملک میں کرپشن ہے۔ وہ سمجھتے تھے نہ آئی ایم ایف کی ضرورت پڑے گی اور نہ کسی اور کام کی ضرورت پڑے گی۔ مفروضوں پر ملک نہیں چلتے۔ پچاس لاکھ گھر بنانے کا کہا گیا ستر سال میں ساٹھ لاکھ گھر بنے ہیں۔ حکومت نے کہا ایک کروڑ نوکریاں دیں گے کہاں سے دیں گے کڑوی گولی حکومت نہیں عوام کھا رہی ہے۔ کن شرائط پر قرضے لئے جارہے ہیں۔ جن علاقوں سے گیس نکلتی ہے وہاں گیس کا نام و نشان نہیں دھرنے میں جو باتیں ہوئیں وہ ریاست کے لئے بڑا چیلنج ہے۔سینٹ کے اجلاس میں کورم کم نکلا۔مختلف معاملات پر بحث کے دوران کورم کی نشاندہی کر دی گئی جس پر چیئرمین نے قائد حزب اختلاف سے کہا یہ اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر طلب کیا گیا ہے اس لئے کورم پورا کرنا اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔ بعد ازاں چیئرمین نے ایوان میں گنتی کرائی۔ کورم پورا نہ نکلنے پر اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا۔ صباح نیوز کے مطابق صدرمملکت نے سینٹ کا اجلاس آج جمعہ کوطلب کرلیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سینٹ کا اجلاس آج صبح دس بج کر تیس منٹ پر طلب کیا گیا ہے۔نیوز رپورٹر کے مطابق چئیرمین کی ہدایت پر قائد ایوان شبلی فراز اپوزیشن کو منا کر لائے۔ چیئرمین سینٹ نے ایوان بالا کے اجلاس میں وزراءکی حاضری کو یقینی بنانے کی ہدایت کی اور سیکرٹری سینٹ کو کہا وزیراعظم کو پیغام بھجوایا جائے کہ اجلاس میں متعلقہ وزراءکو ایوان میں بھجوایا جائے۔ انہوں نے قائد ایوان شبلی فراز سے کہا کہ سینٹ کے اجلاس میں وزراءکی حاضری ضروری ہے۔ چیئرمین سینٹ نے فاٹا اصلاحات پر عملدرآمد میں تاخیر، خاصہ دار اور لیویز فورس کا دائرہ کار بڑھانے اور گلگت بلتستان میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں سکیورٹی فرائض سرانجام دینے والے اہلکاروں کیلئے خصوصی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے معاملات متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوا دئےے۔وزیر مملکت داخلہ شہریار آفریدی نے جلاﺅ، گھیراﺅ کا ملبہ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں پر ڈال دیا۔ انہوں نے کہا تحریک لبیک کہتی ہے جلاﺅ، گھیراﺅ ان کے لوگوں نے نہیں کیا۔ انہیں شناخت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔ جلاﺅ گھیراﺅ پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کے کارکنوں نے کیا۔

سینٹ

ای پیپر دی نیشن